ترک صدر رجب طیب ایردوعان کی جانب سے امریکی صدر جوبائیڈن کے روسی صدر ولادمیر پوتن کو قاتل کہنے پر تنقید سامنے آئی ہے۔ ترک صدر کا کہنا تھا کہ ایک صدر کی جانب سے دوسری ریاست کے سربراہ کو ایسا کہنا قطعاً مناسب نہیں لگتا۔
روسی ذرائع ابلاغ کی جانب سے صدر ایردوعان کے بیان کو مثبت قرار دیا جا رہا ہے، روسی میڈیا کا کہنا ہے کہ ترک صدر کا بیان اس لیے بھی اہم ہے کہ ترکی نیٹو کا رکن ہے، لیکن اس کے باوجود واشنگٹن کے مقابلے میں ماسکو کے حق میں بات کر رہا ہے۔
برطانوی نشریاتی ادارے رائٹرز نے ترک صدر کے بیان کے حوالے سے مزید لکھا ہے کہ صدر ایردوعان نے جوبائیڈن کے بیان کو ناقابل ہضم قرار دیا اور کہا کہ کم ازکم روس جیسی ریاست کے صدر کے لیے قاتل کے الفاظ ناقابل قبول ہیں، ترک صدر نے اپنے بیان میں صدر پوتن کے جوابی بیان کو بھی سراہا ہے۔
واضح رہے کہ صدر بائیڈن نے امریکی نشریاتی ادارے اے بی سی کو انٹرویو میں روسی صدر کو نہ صرف قاتل کہا تھا بلکہ امریکی انتخابات میں مداخلت کرنے اور انکے مخالف ڈونلڈ ٹرمپ کی مدد کرنے کا الزام لگاتے ہوئے صدر پوتن کو سبق سکھانے اور بھاری قیمت چکانے کی دھمکی بھی دی تھی۔
روسی صدر نے اس کے جواب میں صدر بائیڈن کی اچھی صحت کی دعا کے ساتھ کہا کہ ہم بچپن میں کسی کو بُرا بھلا کہنے والے کو بس یہی کہتے تھے کہ جو کسی کو بُرا کہتا، وہ دراصل خود ویسا ہوتا۔
صدر پوتن نے اس کے علاوہ امریکی صدر کو وباء اور دیگر بین الاقوامی مسائل کے حل کے لیے مل کر کام کرنے کی دعوت بھی دی، اور کہا کہ ایسا نہ صرف امریکہ اور روس بلکہ دنیا کے امن اور استحکام کے لیے بھی اچھا ہو گا۔
یاد رہے کہ گزشتہ کچھ عرصے سے نیٹو ممالک کی جانب سے سردمہری کے باعث ترکی اور روس کے تعلقات میں بہت بہتری آئی ہے۔ ترکی اور روس کاراباخ میں، آزربائیجان اور آرمینیا کے مابین ثالث ہیں، ترکی نے شدید امریکی ناراضگی کے باوجود نہ صرف روسی فضائی دفاعی نظام ایس-400 خریدا ہے بلکہ اسکی تنصیب بھی کر دی ہے، جبکہ اب ترکی روس کے ساتھ مل کر جوہری ایٹمی بجلی گھر بھی بنانے جا رہا ہے۔