مغربی ممالک میں حکومتیں چین کے خلاف اپنی عوام میں نفرت پیدا کرنے کے لیے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کررہی ہیں۔ مغربی ذرائع ابلاغ میں چین کو ایک خطرناک شر اور ایسے ملک کے طور پر پیش کیا جارہا ہے جہاں عوام پر ظلم اور تشدد کیا جاتا ہے، بغیر وجہ کے شہریوں کو جیلوں میں ڈالا جاتا ہے اور اقلیتیں بالکل محفوظ نہیں ہیں۔ جبکہ کورونا کے ماخذ کے حوالے سے پراپیگنڈا بھی جاری و ساری ہے۔ مغربی ذرائع ابلاغ میں چینی صدر کو جنونی اور طاقت کے نشے میں مست ایک ایسی قیادت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کو تباہ کرنے پر تلی ہوئی ہے۔
اس کے بالمقابل امریکہ اور صدر بائیڈن کو دنیا کے مسیحا کے طور پر پیش کیا جارہا ہے جن کے بغیر دنیا کا نظام درہم برہم ہو جائے۔
چین کی حالیہ برسوں میں اقتصادی ترقی دراصل اس سارے پراپیگنڈے کے پیچھے بنیادی وجہ ہے۔ چین کی بڑھتی ہوئی اقتصادی اور عسکری قوت کے خلاف مغربی ذرائع ابلاغ نے کھلی جنگ شروع کر دی ہے۔ اس کی دو بنیادی وجوہات ہیں۔ امریکی چودھراہٹ کو للکار اور مغربی نسل پرستانہ تہذیب کی ساری دنیا میں اشاعت و ترویج میں رکاوٹ۔ ان دو وجوہات کی بنیاد پر ساری دنیا میں پراپیگنڈے کے ذریعے جھوٹ کو پھیلایا جارہا ہے۔
مغربی دنیا نے ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف جیسے اداروں کے ذریعے دہائیوں سے پوری دنیا کو قرضے کے چنگل میں پھنسا رکھا ہے لیکن پراپیگنڈا چین کے خلاف ہو رہا ہے۔ چین تصادم کے برعکس پوری دنیا میں شاہراہ ریشم کے منصوبے لا رہا ہے، علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر دنیا کے بیشتر ممالک چین کی اقتصادی ترقی سے فائدہ اٹھانے کی کوششوں میں اس کا ساتھ دینے کے لیے عملاً تیار ہوچکے ہیں۔ مغربی دنیا کی ساری دولت استعماری اور غاصبیت کے دور میں کمائی اور غریب ملکوں سے لوٹی ہوئی ہے، یہی وجہ ہے کہ چین کو اس اجارہ داری میں رخنے کے طور پر دیکھ رہی ہے اور ایک متبادل ابھرتا انہیں ہضم نہیں ہورہا ہے۔
ایسے میں سب سے آسان حل جو مغرب کو سوجھا ہے وہ چین اور اس کی اقتصادی طاقت کے خلاف عوام کے ذہنوں میں شکوک و شبہات کی پیداوار ہے۔ اس غرض کے لیے ذرائع ابلاغ اور سماجی روابط کی ویب سائٹوں پر بیش بہا دولت خرچ کی جارہی ہے۔ چین کے ہر اقدام کو منفی صورت میں پیش کیا جارہا ہے۔ اور چین سے سرزد ہونے والی چھوٹی سی چھوٹی لغزش کو بھی بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔ چین کی ترقی سے دنیا میں ایک نئی امید کی کرن نظر آرہی ہے، جہاں دنیا کسی ایک بڑی طاقت کے زیر اثر نہیں، بلکہ مختلف الجہت طاقتوں کے درمیان ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکتی ہے۔ دنیا میں یہ امید تازہ ہوگئی ہے کہ ایک ایسی دنیا ممکن ہے جہاں طویل اور نہ ختم ہونے والی جنگیں نہ ہوں، پابندیاں اور غربت پر مجبور کردینے والی عالمی طاقت نہ ہوں، جو اپنے مفادات کے حصول کے لیے مختلف ممالک پر مختلف بہانوں سے جنگ مسلط کرکے ان پر بم برسائے، بلکہ ایک ایسی دنیا ممکن ہے جہاں ہر کوئی باہمی عزت و وقار اور امن و سکون کے ساتھ زندگی گزارنے کے مواقع میسر پائے گا۔
ابو لقمان – کشمیر