چین نے خاندانی منصوبہ بندی کی پالیسی میں ترمیم کرتے ہوئے دو سے زائد بچے جننے کی اجازت دے دی ہے۔ ترمیم ملک میں عمر رسیدہ افراد کی تعداد بڑھنے اور مستقبل قریب میں جوانوں کی تعداد کم ہونے کے خطرے کے پیش نظر کی گئی ہے۔
ماضی میں ایک طویل مدت تک چین میں ایک خاندان کو صرف ایک بچہ پیدا کرنے پالیسی نافذ رہی ہے جسے 2016 میں بدلتے ہوئے 2 بچوں کی اجازت دی گئی۔
چین کی کمیونسٹ پارٹی کے سیاسی شعبے نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ایک ایسی پالیسی جس سے ایک جوڑے کو تین بچے پیدا کرنے کی سہولت دی جائے گی کا نفاذ ہورہا ہے اس سے چین کی آبادی کا ڈھانچہ متوازی رکھنے میں مدد ملے گی۔
اس اقدام کا مقصد ملک میں جوانوں کی آبادی کے مسئلے سے نمٹنا جائے گا۔ چینی حکام پرامید ہیں کہ نئی پیدائشی پالیسی سے طویل مدتی اور متوازن آبادی کا ہدف حاصل کرنے میں مدد لے گی۔
چین نے کئی دہائیوں تک چلنے والی ایک بچے کی پالیسی کو اکتوبر 2015 میں ختم کردیا تھا، جو آبادی میں اضافے کو کنٹرول کرنے کے لیے تشکیل دی گئی تھی۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق طویل عمر اور متوقع شرح پیدائش کی کمی کی وجہ سے 60 سال سے زیادہ عمر کے افراد 2040 تک چین کی آبادی کا 28 فیصد ہوجائیں گے، جس سے چین کی حالیہ ترقی کرتی معیشت کے سست ہو جانے کا امکان ہے اور صحت عامہ کا مسئلہ بھی سر اٹھا رہا ہے۔
چین کے قومی اعدادوشمار کے مطابق ملک میں صنفی عدم توازن بھی موجود ہے اور یہ فرق خطرناک حد تک بڑھ گیا ہے، چین میں مردوں کی تعداد خواتین کی نسبت زیادہ ہے۔ مقامی ماہر شماریات کے مطابق صنفی فرق کو ختم کرنے میں 50 سے 60 برس لگ سکتے ہیں، لیکن فی الحال حکومتی ترجیح مستقبل میں معیشت کا پہیہ چلانے کے لیے درکار جوانوں کی نسل ہے۔ چینی حکومت کے جاری کردہ نئے اعدادوشمار کے مطابق ملک کی حالیہ آبادی 1 ارب 41 کروڑ ہے، لیکن پچھلے 10 سالوں میں ملکی آبادی میں اضافے کی شرح 60 کی دہائی کے بعد سب سے کم تھی، جس کے باعث حکومت نے جوانوں کو بچے پیدا کرنے کی رغبت دینے کا فیصلہ کیا ہے۔