روسی وزیر دفاع سیرگئی شوئیگو نے افغانستان سے امریکی فوج کے انخلاء پر گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگرچہ بظاہر امریکہ اگلے ماہ تک افغانستان سے مکمل طور پر نکل جائے گا لیکن حقیقت میں افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔
رشیا ٹوڈے سے گفتگو میں روسی اعلیٰ عہدے دار کا کہنا تھا کہ امریکی سرگرمیاں اشارہ ہیں کہ امریکہ اب بھی وسط ایشیا پر نظر رکھے ہوئے ہے اور اسے بھرپور دلچسپی ہے کہ افغانستان کے ہمسایہ ممالک میں کیا ہو رہا ہے۔ روسی فوج کے سربراہ کا مزید کہنا تھا کہ امریکی سرگرمیاں بیزاری کا باعث ہیں، اور امریکہ خطے میں حالات بگاڑ کر اسلحہ بیچنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ امریکہ کی مدد کرنے والے افغانوں کو اسلامی امارات کا خوف بیچا جا رہا ہے اور غنی انتظامیہ کی فوج اب ہتھیار ڈال کر ہمسایہ ممالک تاجکستان میں دھکیلی جا رہی ہے۔
وزیر دفاع کا مزید کہنا تھا کہ ہمیں ہمیشہ ہی انتظار رہا کہ امریکہ کے آنے یا افغانستان میں ٹھہرنے سے کچھ اچھا ہوا ہو، یا کسی بھی ملک بھی ایسا ہوا ہو، امریکہ جہاں بھی گیا ہر جگہ یہی خونی کھیل کھیلا گیا، چاہے وہ شام ہو، لیبیا ہو، جب بھی کہیں کوئی بیرونی طاقت آئی، یہی تاریخ دوہرائی گئی۔
یاد رہے کہ اس سال کے آغاز میں صدر جو بائیڈن نے 9/11 کی 20ویں سالگرہ پر افغانستان سے افواج نکالنے کا اعلان کیا تھا، امریکی حساس اداروں کی رپورٹوں کے مطابق امریکی حمایت یافتہ غنی انتظامیہ کچھ ہفتے بھی نہیں ٹک سکتی، اور یہی وجہ ہے کہ وہ امریکہ سے فضائی تحفظ مانگ رہی ہے، جس کے بدلے امریکی مفادات کا خیال رکھا جائے گا۔
دوسری طرف روس نے کسی بھی کشیدہ صورتحال سے نمٹنے کے لیے سوویت یونین کی سرحدوں یعنی تاجکستان اور ازبکستان کے ساتھ افواج تعینات کر دی ہیں، اور ماسکو امارات اسلامیہ افغانستان سے مستقبل میں باہمی تعلقات کے لیے رابطہ قائم کئے ہوئے ہے۔