ایرانی ذرائع ابلاغ کے مطابق ملکی فوج میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات رکھنے والا ایک گروہ پکڑا گیا ہے جو ملک میں ہونے والے مظاہروں کے دوران تشدد کی منصوبہ بندی میں ملوث تھا۔ محکمہ جاسوسی کے حوالے سے چلنے والی خبر میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ متذکرہ عسکری گروہ کے پاس سے بھاری اسلحے کی کھیپ برآمد ہوئی ہے، جو مبینہ طور پر مغربی سرحد سے ملک میں داخل ہوئی۔ خبر میں اسلحے کی مقدار کے حوالے سے تفصیل نہیں بتائی گئی تاہم گرفتار گروہ پر فلسطین پہ قابض صیہونی انتظامیہ سے تعلق کا الزام لگایا ہے۔ وزارت حساس معاملات کا کہنا ہے کہ برآمد اسلحے کو مظاہروں کے دوران انتشار پھیلانے اور حکومت کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کے لیے استعمال کیا جانا تھا۔
یاد رہے کہ ایران میں معاشی بدحالی اس وقت تاریخ میں اپنے عروج پر ہے، اور ملک کے کچھ علاقوں میں خشک سالی کے باعث عوام میں غم و غصہ بڑھ رہا ہے۔ ملک کے جنوب مغرب میں ہوئے ایسے ہی ایک مظاہرے کے دوران 5 افراد مارے جا چکے ہیں۔
ایرانی وزارت کا مزید دعویٰ ہے کہ قابض صیہونی انتظامیہ جون میں صدارتی انتخابات کے دوران بھی ملک میں افراتفری پھیلانے کا ارادہ رکھتی تھی تاہم اسے ناکام بنا دیا گیا اور اب اس گروہ کو بھی دھر لیا گیا ہے جو کہ صیہونی دہشت گردی کے منصوبے میں معاون تھا۔
وزارت نے شہریوں کو تنبیہ کی ہے کہ وہ کسی قسم کی تخریب کاری کے بدلے پیسوں کے لالچ سے ہوشیار رہیں، خصوصاً اگر ایسا آن لائن ہو رہا ہو۔ حساس ادارے کے سربراہ نے مظاہروں کے دوران ہوشیار رہنے اور دشمن کی سازش کو ناکام بنانے پر شہریوں کی ستائش بھی کی ہے۔
یاد رہے کہ ایران صیہونی انتظامیہ پر ملکی جوہری منصوبہ روکنے اور افراتفری پھیلانے کا الزام لگاتا رہا ہے۔رواں اور گزشتہ سال ایران میں ہوئے بم دھماکوں میں بھی ایران کے مطابق قابض صیہونی ہاتھ تھا۔ موساد یا صیہونی انتظامیہ نے ان الزامات پر کبھی کوئی ردعمل نہیں دیا تاہم موساد کے سابق سرغنہ نے گزشتہ ماہ ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ اچھا ہوتا اگر ان دھماکوں میں صیہونی ہاتھ ہوتا۔ انٹرویو میں یوسی کوہن کا مزید کہنا تھا کہ موساد کئی برسوں سے ایرانی جوہری سائنسدان فخری زادے پر نظر رکھی ہوئے تھی، کیونکہ اسکا کام صیہونی قبضے کے خلاف خطرہ بن رہا تھا۔