پولینڈ کے وزیر قانون نے دھمکی دی ہے کہ اگر یورپی اتحاد نے ملکی قوانین میں مداخلت کا سلسلہ نہ روکا تو پولینڈ اتحاد سے الگ ہو جائے گا۔ زبیگنیو زیوبرو کا کہنا تھا کہ اتحاد کے نام پر مغربی اقوام کو بلیک میل کرنے کی کوششیں ترک کرنا ہوں گی، وگرنہ انکی حکومت اتحاد سے الگ ہونے کا سوچے گی۔
مقامی ذرائع ابلاغ سے گفتگو میں پولش وزیر قانون نے 16 آگست کو متوقع یورپی عدالت کے فیصلے پر اظہار خیال کیا جسمیں پولینڈ پر عدالتی حکم کی تعمیل نہ کرنے پر مالی پابندیاں لگائے جانے کا امکان ہے، پولش وزیر قانون کا کہنا تھا کہ اگر اتحاد کا یہی رویہ رہا تو پولینڈ اتحاد سے علیحدگی اختیار کر لے گا۔ انکا مزید کہنا تھا کہ یہ تاثر انتہائی غلط ہے کہ یورپی اتحاد ایک اچھا انکل ہے اور ہمین خوب رقوم دیتا ہے، اور اس کے بدلے وہ ہم سے جو چاہے کروا سکتا ہے، اور ہم ہر صورت اس کے پابند ہیں، یہ پراپیگنڈا بکواس ہے، ہم اسے نہیں مانتے۔
پولینڈ اور یورپی اتحاد کا اختلاف مقامی عدلیہ کی خود مختاری کو لے کر ہے، یورپی اتحاد کا ماننا ہے کہ پولینڈ کی عدلیہ آزاد نہیں، اور اس پر حکومتی اثرورسوخ ہے، تاہم پولینڈ کا مؤقف ہے کہ یہ خود مختار ملکی عدلیہ پر یورپی قوانین اور اثرورسوخ کو بڑھانے کی کوشش ہے، جسے وہ کسی قیمت قبول نہیں کریں گے۔
یورپی اتحاد کی پیش کردہ اصلاحات میں عدلیہ میں قاضیوں کی عمر کے تعین، کسی عدالت میں تعیناتی کے دورانیے کے ساتھ ساتھ قاضیوں کی سنوائی کے دوران تحقیقات اور سزا جیسی شرائط شامل ہیں۔ مقامی اخبارات کے مطابق پولینڈ کا اصلاحات کے قبول کرنے سے فوری طور پر ملک میں عدالتی بحران پیدا ہو سکتا ہے، کیونکہ ان سے اعلیٰ عدلیہ کے 20 سے زائد قاضیوں فوری طور پر برطرف ہو جائیں گے۔ تاہم اس سے بھی اہم مسئلہ ملکی معاملات میں بڑھتے اتحادی اشرافیہ خصوصی مغربی ممالک کے اثرورسوخ کے بڑھنے کا خطرہ ہے۔
عدالتی نظام میں اصلاحات کے نام پر یورپی اتحاد نے اتحادی ممالک پر بھرپور دباؤ ڈال رکھا ہے، پولینڈ کے وزیر قانون، “قانون اور انصاف” نامی جماعت کے سربراہ ہیں، جو مقامی سطح پر بھی ایک اتحادی حکومت کا حصہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ یورپی اتحاد کے خلاف سختی سے مزاحمت کر رہے ہیں۔
اس کےعلاوہ پولینڈ میں حالیہ سیاسی کشیدگی کا بھی اس معاملے سے گہرا تعلق ہے۔ ملکی حزب اختلاف کاماننا ہے کہ حکومت کی عدلیہ میں تعینات کردہ ضابطہ کار کمیٹی سیاسی ہے، ان الزامات پر اعلیٰ عدلیہ نے کمیٹی کو فوری منجمند کر دیا ہے۔ دوسری طرف حکومتی اتحادی جماعتوں میں بھی اس معاملے پر اختلافات سامنے آرہے ہیں کہ یورپی اتحاد کی پیش کردہ اصلاحات کے ساتھ کس حد تک جایا جائے۔ مخالفین کا ماننا ہے کہ یہ ملکی معاملات میں مغربی اشرافیہ کے اثرورسوخ کو بڑھائے گا اور مکالفین دراصل مغربی ایماء پر لابی کے زیر اثر ہیں۔