سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان سے ناکام انخلاء اور جدید ترین اسلحہ وہاں چھوڑنے پر بائیڈن انتظامیہ پر کڑی تنقید کی ہے، صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ یہ جدید اسلحہ اب نہ صرف طالبان استعمال کریں گے بلکہ اسے آسانی سے چورا کر روس اور دیگر ممالک بھی بنا سکیں گے۔ فاکس نیوز سے گفتگو میں ریپبلک رہنما کا کہنا تھا کہ افغانستان سے انخلاء امریکی کی جگ ہسائی کے سوا کچھ نہیں، بائیڈن انتظامیہ نے دنیا بھر میں امریکہ کا بدترین مذاق بنا ڈالا ہے۔
صدر ٹرمپ کا مزید کہنا تھا کہ بائیڈن نے امریکہ کے معاون افغان شہریوں کو بھی بے یارومددگار چھوڑ دیا ہے، جنہیں آسانی سے طالبان یرغمال بنا سکتے ہیں اور ماضی میں امریکہ کی مدد کرنے پر غدار وطن قرار دیتے ہوئے عتاب کا نشانہ بنا سکتے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے امریکی ہتھیاروں کی جدید ٹیکنالوجی کے حوالے سے خصوصی طور پر تحفظات کا اظہار کیا اور اسے آئندہ کے لیے بڑا خطرہ قرار دیا۔انکا کہنا تھا کہ ان کے منصوبے کے مطابق سلسلہ وار پہلے امریکی حامیوں، پھر اسلحے اور پھر فوج کو افغانستان سے نکالنا تھا۔
صدر ٹرمپ نے بلیک ہاک ہیلی کاپٹر کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ دنیا میں بہترین جنگی ہیلی کاپٹر کا مالک ہے، اب کھربوں ڈالر کی لاگت سے تیار کردہ یہ ٹیکنالوجی مفت اور آسانی سے روس، چین اور دیگر ممالک کے ہاتھوں میں چلی گئی ہے۔ امریکی ٹینک، محدود پیمانے پر قابل استعمال جدید ترین میزائل سب اب امریکہ کے دشمن ممالک کے ہاتھوں میں ہے۔ صدر ٹرمپ نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ انہیں علم تھا کہ غنی فوج لڑنے کے قابل نہیں اس لیے جدید اسلحے کو افغانستان سے نکالنے کا انکا پورا ارادہ تھا۔
واضح رہے کہ قندھار میں ہوائی اڈے پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعد امارات اسلامیہ افغانستان نے ایک ویڈیو جاری کی تھی جس میں اڈے پر موجود جدید ترین اسلحہ، بشمول بیلک ہاک ہیلی کاپٹر کو طالبان کے قبضے میں دیکھا جا سکتا ہے۔ ویڈیو میں دو روسی ساختہ ہیلی کاپٹر بھی دکھائے گئے تھے تاہم ان پر پرواز کے لیے پر نہیں تھے۔ ایسی ہی ایک ویڈیو میں طالبان کو افغانستان کی فضاؤں میں پہلی کاپٹر پر پرواز بھرتے بھی دیکھا جا سکتا ہے، جو ممکنہ طور پر پہلے اشرف غنی کی فوج کے زیر استعمال تھا۔
افغان امن مذاکارت کے حوالے سے بھی صدر ٹرمپ نے اشرف غنی اور سابق کابل انتظامیہ کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا، انکا کہنا تھا کہ طالبان بظاہر ایک بکھڑا ہوا اور مزاحمتی گروہ تھا لیکن جنگ معاہدے کے دوران انہیں احساس ہوا کہ وہ امن مذاکرات کے لیے زیادہ بہتر انداز میں تیار اور حامی تھے اور امریکی حمایت یافتہ گروہ صرف وقت کے ضیاع میں مصروف تھا۔
امریکہ کے ان تمام تحفظات کے باوجود یہ واضح رہنا چاہیے کہ روس نے تاحال طالبان کو دہشت گرد گروہ کی فہرست سے نکالا نہیں ہے، اگرچہ روس ماسکو سمیت کئی مقامات پر افغان امن مذاکرات کا حصہ رہا ہے اور طالبان کی میزبانی اور معاونت کرتا رہا ہے۔ اور جہاں امریکہ سمیت متعدد مغربی ممالک نے کابل سے اپنا سفارتی عملہ واپس بلا لیا ہے وہاں چین، پاکستان اور روس سمیت متعدد ممالک اپنے سفارتی امور کو بلا تعطل جاری رکھے ہوئے ہیں۔ تاہم ایک حالیہ بیان میں وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ وہ نئی حکومت کے آئندہ رویے کے مطابق اپنا فیصلہ کریں گے، وہ ماضی کی طرح افغانستان میں آنے والی تبدیلی کی فوری حمایت یا مذمت نہیں کریں گے۔