واشنگٹن پوسٹ کے ایک اداریے میں انکشاف ہوا ہے کہ امریکہ نے آگست میں امارات اسلامیہ افغانستان کے کنٹرول سنبھالنے سے قبل ملک سے شیڈی زیرو یونٹ نامی جتھے اور انکے اہل خانہ کو اولین ترجیح میں نکالا، رپورٹ کے مطابق یہ خفیہ فوجی جتھہ امریکی ایماء پر افغانستان میں خصوصی کارروائیاں کرتا تھا اور سنگین جنگی جرائم میں ملوث رہا ہے۔ اداریے میں دو اعلیٰ امریکی فوجی عہدے داروں کے حوالے سے ان تمام تفصیلات کو عیاں کیا گیا ہے۔،
رپورٹ کے مطابق امریکہ نے افغانستان سے 20 ہزار سے زائد ایسے افراد اور انکے اہل خانہ کو نکالا ہے جو امریکہ کے لیے خفیہ کارروائیاں کرتے تھے، جن میں سے 7 ہزار انتہائی حساس اور اہم تھے۔ جبکہ مجموعی طور پر 60 ہزار سے 1 لاکھ 20 ہزار تک لوگوں کو افغانستان سے نکالا گیا۔ اداریے کے مطابق سی آئی اے نے ان افراد کو پہلے قطر پہنچایا اور پھر وہاں سے انہیں امریکہ پہنچایا گیا۔
خبر کے سامنے آتے ہی مختلف سماجی حلقوں کی طرف سے ناراضگی کا اظہار کیا جا رہا ہے، انسانی حقوق کے تحفظ کی تنظیم کے ایشیائی باب کی سربراہ پیتریکیا گوسمان نے اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ امریکہ کو قطعاً افراد کو تحفظ نہیں دینا چاہیے جو جنگی جرائم میں ملوث رہے ہیں۔ یاد رہے کہ 2019 سی آئی اے کے یہ خصوصی جتھے 14 انتہائی سنگین جنگی جرائم میں ملوث پائے گئے تھے۔ ان جتھوں کے خلاف افغانستان میں کبھی کوئی کارروائی عمل میں نہیں آئی اور نہ انکا احتساب کیا جا سکا۔
سنگین جنگی جرائم میں ملوث ہونے کے باوجود سی آئی اے خفیہ جتھوں کے تحفظ میں ملوث پائی گئی ہے۔ گزشتہ ماہ سی آئی اے ڈائیریکٹر جارج ٹینٹ نے اپنے بیان میں کہا کہ یہ امریکہ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ افغانستان میں اپنے معاونین کے تحفظ کو یقینی بنائے، ان افراد کا ہم پر بڑا احسان ہے کہ انہوں نے ہمیں القائدہ سے محفوظ بنایا، سی آئی اے اپنے کیے وعدوں کو ہر حال میں پورا کرے گی۔
امریکی انتظامیہ نے ان خفیہ یونٹوں کو موہاکس کا نام دیا تھا، جن کا مقصد ایسی کارروائیاں انجام دینا تھا جو امریکی فوج خود انجام نہیں دے سکتی تھی۔ ایک اور امریکی نشریاتی ادارے کے مطابق اس جتھے کا قیام پاکستان میں کارروائیوں کے لیے کیا گیا تھا، تاکہ احتساب اور پاکستان سے تعلقات خراب کیے بغیر امریکہ اپنے مفادات کا تحفظ کر سکے۔
ان خونی جتھوں کے ہاتھوں مارے جانے والے افراد کا کوئی اندراج نہیں ہے، البتہ وارداک کے علاقے میں ایک رات کی کارروائی میں بچوں سمیت 51 عام شہری شہید ہوئے تھے۔ مختلف مقامی رپورٹوں کے مطابق انہیں انتہائی قریب سے گولیاں ماری گئی تھیں۔
مختلف ذرائع کے مطابق ان جتھوں کا قیام 2010 میں عمل میں آیا تھا، جن سے سی آئی اے نے جنگی جرائم کے الزامات سے فرار کا رستہ نکالا تھا۔ ان جتھوں کو حاصل آزادی اور قوت کا اندازہ اس چیز سے لگایا جا سکتاہے کہ افغانستان کے قومی سلامتی کے مشیر حمداللہ مہیب سے ایک بار اس حوالے سے سوال ہوا تو انہوں نے کہا کہ انہیں نہیں علم کہ یہ جتھہ کیسے کام کرتا ہے، وہ صرف یہ جانتے ہیں کہ یہ براہ راست سی آئی اے کے لیے کام کرتا ہے۔
امریکی میڈیا کے مطابق یہ خفیہ جتھے معمولی سی آئی اے جتھوں کے تحت کام کرتے تھے، اور انہیں افغانستان کے شمال میں ایگل بیس نامی چھاؤنی سے چلایا جاتا تھا۔ یہ چھاؤنی سالٹ پِٹ نامی بدنام زمانہ چھاؤنی کا حصہ تھی، جہاں ماضی میں جنگی قیدیوں پر تفتیش کے لیے تشدد کیا جاتا تھا۔
واشنگٹن پوسٹ کے اداریے میں مزید دعویٰ کیا گیا ہے کہ انخلاء کے دوران سی آئی اے کے ڈائریکٹر ویلیم برنز کا خصوصی خفیہ دورہ انہی جتھوں کے محفوظ انخلاء کو یقینی بنانے کے لیے ہی تھا۔
کابل میں یہ افواہ بھی گرم رہی کہ انخلاء کے دوران کابل ہوای اڈے پر ہونے والا خود کش دھماکہ انہی جتھوں کو بشانہ بنانے کے لیے کیا گیا تھا، جس کی ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی۔ حملے میں 13 امریکی فوجیوں سمیت 170 افراد مارے گئے تھے۔