برطانیہ میں فوجی اہلکار خواتین کی جانب سے بڑھتے جنسی ہراسانی کے مقدمات کے بعد ادارے نے اہلکاروں کو رضامندی سے جنسی تعلق کو سمجھنے کی تربیت دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اپنی نوعیت کی یہ انوکھی تربیت مرد و خواتین دونوں کو دی جائے گی جس میں انکی کردار سازی کی جائے گی کہ کب انکا اپنے ساتھی اہلکار کے ساتھ جنسی تعلق متفقہ رضا کے تحت تصور ہو گا اور کب نہیں۔
واضح رہے کہ برطانوی فوج میں کام کرنے والی ہر 3 میں سے 2 خواتین کی جانب سے ادارے میں جنسی ہراسانی کی شکایت درج کی جاتی ہے۔ تاہم بیشتر تحقیقات میں سامنے آتا ہے کہ شکایت ماضی کے تعلق میں چپکلش کے نتیجے میں بدلے کے لیے درج کی جاتی ہے۔
شاہی فوجی پولیس کی جانب سے جاری بیانیے میں کہا گیا ہے کہ منصوبے کے تحت تمام اہلکاروں کو تربیت دی جائے گی کہ وہ ملازمت کے دوران اس حساسیت کو جگائیں کہ فوج میں کیا قابل قبول ہے اور کیا نہیں۔ تربیت میں اہلکاروں کے لیے رضامندی اور اعتراض کے نمایاں فرق کو اجاگر کیا جائے گا۔
جاری بیانیے کے مطابق تربیت کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلے حصے میں اہلکاروں کو زبردستی اور رضامندی سے جنسی تعلق میں فرق سمجھایا جائے گا۔ جبکہ دوسرے حصے میں فحش مواد کو آن لائن شائع کرنے کے حوالے سے قوانین کی آگاہی فراہم کی جائے گی۔ جس میں خصوصی طور پر اہلکاروں میں رضامندی سے جنسی تعلق کے بعد کسی نجی چپکلش کے نتیجے میں ساتھی اہلکار کی برہنہ تصاویر، ویڈیو یا پیغامات کو شائع کرنے کے حوالے سے حساسیت کو ابھارا جائے گا۔
واضح رہے کہ برطانیہ میں گزشتہ کچھ عرصے میں خواتین اہلکاروں کی فوج میں بھرتی کے رحجان میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے، اور حالیہ پالیسی ممکنہ طور پر اسی رحجان کے پیش نظر اختیار کی گئی ہے۔
خبروں کے مطابق سیکرٹری دفاع بین ویلس نے رواں ہفتے کئی اہم اعلیٰ سطحی ملاقاتوں اور ادارتی نشستوں میں مسئلے کے حل کے لیے اہم فیصلہ لیتے ہوئے پالیسی کا اعلان کیا ہے۔
اس موقع پر جنرل سر مارک چارلیٹن سمتھ نے کہا کہ فوج کا ادارہ بھی معاشرتی برائیوں سے بچ نہیں پاتا، بدکرداری یا دیگر تہذیبی مسائل اور ان سے نمٹنے کی ضرورت فوج میں بھی رہتی ہے، اس لیے اب اس مسئلے کو چھپانے کے بچائے ان پر کھل کر بات کرنے کا وقت آگیا ہے۔