برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے سابق صحافی رابن آئیتکن نے رشیا ٹوڈے سے گفتگو میں مغربی نشریاتی اداروں کے حوالے سے اہم انکشافات کیے ہیں۔ رابن کا کہنا تھا کہ مغربی ذرائع ابلاغ اور اسکے زیر اثر دنیا بھر میں نشریاتی ادارے بڑے واقعات کے بارے میں رائے کو انتہائی چالاکی سے اپنے مطابق ڈھالتے ہیں۔ رابن کا کہنا تھا کہ لبرل مغربی نشریاتی اداروں پر قابض ہیں اور یہ نہ صرف اہم اور بڑے واقعات کو انتہائی نرم اور قابل قبول انداز میں نشر کرتے ہیں بلکہ معمولی خبروں میں بھی انکا کوئی نہ کوئی خفیہ ایجنڈا پوشیدہ ہوتا ہے۔ برطانوی صحافی کا کہنا تھا کہ لوگوں کو کسی بھی قسم کی خبر کو پڑھتے یا سنتے ہوئے اس میں پوشیدہ ایجنڈے کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
رابن آئیتکن نے خصوصی طور پر مغربی ناظرین کو مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ صارفین کو کبھی بھی صحیح خبر اور تناظر پیش نہیں کیا جاتا، کیونکہ اس سے لبرل ایجنڈا متاثر ہو سکتا ہے۔ لبرل ترغیبی عناصر انسانی ذہنوں کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔
آئیتکن کا کہنا تھا کہ آپ کو برطانوی نشریات میں صرف ایک خاص رحجان نظر آئے گا، لیکن یہ صرف برطانیہ تک محدود نہیں، بلکہ دیگر مغربی ممالک بھی اسی کا شکار ہیں۔ لبرل اپنے خاص سیاسی مقاصد کے تحت ہمارے معاشروں اور عوامی بیانیے کو کنٹرول کر رہے ہیں۔ برطانوی صحافی اور لکھاری نے گزشتہ امریکی انتخابات کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ اس دوران ناظرین کو پورے مغربی ذرائع ابلاغ خصوصاً برطانیہ میں یک سوئی نظر آئے گی۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ایک بدکردار انسان اور برائی کے طور پر پیش کیا گیا۔ رابن کا کہنا تھا کہ یہ صرف اندرونی سیاست تک محدود نہیں بین الاقوامی تعلقات اور سیاست میں بھی لبرل میڈیا ایسا ہی کردار ادا کر رہا ہے۔ مغربی ذرائع ابلاغ میں بلا تفریق روس کے بارے میں صرف منفی رائے اور خبریں دیکھنے کو ملیں گی، ایسے میں لوگ کیسے روس کے بارے میں منصفانہ رائے قائم کر سکتے ہیں؟
برطانوی صحافی نے دو ٹوک الفاظ میں مغربی ناظرین کو کہا کہ انہیں خفیہ لبرل ایجنڈوں کو سمجھنے کی صلاحیت پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے، انہیں مغربی ابلاغی اداروں اور انکے اہلکاروں کو انتہائی تنقیدی نگاہ سے دیکھنا چاہیے۔ انکا کہنا تھا کہ خبروں اور واقعات کے انتخاب سے لے کر جملوں اور الفاظ کا انتخاب تک ابلاغ کے ایجنڈے کی عکاسی کرتا ہے، شہریوں کو پر امن دنیا کے قیام کے لیے یہ صلاحیت حاصل کرنا ہو گی۔ انہیں نئے آزاد اداروں کی مدد کرنی چاہیے اور انکی مدد سے ایسے واقعات کے بارے میں جاننا چاہیے جنہیں بڑے ادارے دبا دیتے ہیں۔ شہریوں کو خبروں کے انتخاب سے لے کر انکی زبان پر سوال کرنے چاہیے۔ شہریوں پوچھنا چاہیے کہ کیوں کوئی واقعات قومی اور عوامی نشریاتی اداروں پر نشر نہیں کیا گیا؟ کن بنیادوں پر کوئی واقع نشر یا نظر انداز ہوتا ہے؟
رشیا ٹوڈے سے گفتگو میں رابن نے بی بی سی دفاتر میں موجود ماحول کا ذکر بھی کیا، انکا کہنا تھا کہ دفاتر میں ملازم لبرل ایجنڈوں کے خلاف رائے کا اظہار تک نہیں کر سکتے، مثال دیتے ہوئے برطانوی صحافی کا کہنا تھا کہ چاہے کوئی صحافی ہم جنس پرستی کے خلاف نجی رائے کا مالک ہو، لیکن وہ اسکا اظہار نہیں کر سکتا۔ دفتری ماحول میں یہ احساس پیدا کر دیا گیا ہے کہ ایسا کرنا اسکی ملازمت، ترقی اور مستقبل کے لیے خطرناک ہو گا۔
رابن کا کہنا تھا کہ بی بی سی کے متصب اور غیر منصفانہ ہونے کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ادارہ ایسے اداروں اور افراد کو اپنے پروگراموں میں مدعو نہیں کرتا جن کے بارے میں پہلے سے معلوم ہو کہ وہ لبرل ایجنڈوں کے خلاف رائے کے مالک ہیں، انہیں خطرے کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ جبکہ ایسے افراد اور اداروں کو ہر موضوع پر گفتگو کے لیے مدعو کر لیا جاتا ہے جو لبرل ایجنڈوں پر کام کرتے ہیں، اور بلا ضرورت ان سے ہم جنس پرستی اور ایسے موضوعات پر گفتگو کی جاتی ہے۔ اس حوالے سے رابن آئیتکن نے سٹون وال گروپ کا ذکر کیا اور کہا کہ سٹون وال کی تشہیر اور مقبولیت کا بڑا ذمہ دار بی بی سی ہی ہے۔