Shadow
سرخیاں
پولینڈ: یوکرینی گندم کی درآمد پر کسانوں کا احتجاج، سرحد بند کر دیخود کشی کے لیے آن لائن سہولت، بین الاقوامی نیٹ ورک ملوث، صرف برطانیہ میں 130 افراد کی موت، چشم کشا انکشافاتپوپ فرانسس کی یک صنف سماج کے نظریہ پر سخت تنقید، دور جدید کا بدترین نظریہ قرار دے دیاصدر ایردوعان کا اقوام متحدہ جنرل اسمبلی میں رنگ برنگے بینروں پر اعتراض، ہم جنس پرستی سے مشابہہ قرار دے دیا، معاملہ سیکرٹری جنرل کے سامنے اٹھانے کا عندیامغرب روس کو شکست دینے کے خبط میں مبتلا ہے، یہ ان کے خود کے لیے بھی خطرناک ہے: جنرل اسمبلی اجلاس میں سرگئی لاوروو کا خطاباروناچل پردیش: 3 کھلاڑی چین اور ہندوستان کے مابین متنازعہ علاقے کی سیاست کا نشانہ بن گئے، ایشیائی کھیلوں کے مقابلے میں شامل نہ ہو سکےایشیا میں امن و استحکام کے لیے چین کا ایک اور بڑا قدم: شام کے ساتھ تذویراتی تعلقات کا اعلانامریکی تاریخ کی سب سے بڑی خفیہ و حساس دستاویزات کی چوری: انوکھے طریقے پر ادارے سر پکڑ کر بیٹھ گئےیورپی کمیشن صدر نے دوسری جنگ عظیم میں جاپان پر جوہری حملے کا ذمہ دار روس کو قرار دے دیااگر خطے میں کوئی بھی ملک جوہری قوت بنتا ہے تو سعودیہ بھی مجبور ہو گا کہ جوہری ہتھیار حاصل کرے: محمد بن سلمان

ماسکو: روسی صدر کا اعلیٰ سفارتی عملے سے خصوصی خطاب، خارجہ امور سے متعلق مسائل اور پالیسی اعلانات

روسی صدر ولادیمیر پوتن نے ماسکو میں اعلیٰ سفارتی عملے کے ساتھ خصوصی ملاقات کی ہے۔ ملاقات کم اجلاس میں ہونے والے صدر پوتن کے خطاب کو مغربی ممالک میں خصوصی توجہ ملی ہے۔ مغربی ذرائع ابلاغ کے مطابق خطاب صدر پوتن کی عمومی خارجہ پالیسی، مغرب کے ساتھ تعلقات اور ملک کو درپیش بین الاقوامی تعلقات کا خلاصہ تھا۔

صدر پوتن نے کہا کہ مغرب عالمی معاملات میں روسی تحفظات کو سنجیدہ نہیں لیتا، اس وقت روس کے چاروں طرف بشمول بحیرہ اسود میں نیٹو افواج موجود ہیں، یہ اشتعال انگیزی ہے۔ روس مسلسل اپنے تحفظات سے مغربی ممالک کو آگاہ کر چکا ہے اور حدوں میں رہنے کی تلقین بھی کی جا چکی ہے لیکن مغربی قیادت پر اسکا کوئی اثر نہیں ہو رہا، روسی تنبیہ کو سنجیدہ نہیں لیا جارہا۔

خطاب میں روسی صدر کا مزید کہنا تھا کہ مغرب قابل اعتماد ساتھی نہیں ہے۔ یوکرین میں حالات کا حوالہ دیتے ہوئے صدر پوتن کا کہنا تھا کہ جرمنی اور فرانس نے معاہدہ منسک ختم کرنے پر یوکرین کی ستائش کی، یہ وہ معاہدہ تھا جس سے مشرقی یوکرین کے ساتھ امن ممکن ہوا تھا۔ وکی لیکس کے ذریعے سامنے آنے والے دستاویزات سے بھی عیاں ہو گیا کہ یہی دونوں یورپی ممالک روسی جہاز گرانے کے زمہ دار تھے۔ آپ کبھی بھی مغرب پر پورے بھروسے کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں کر سکتے۔ ہمارے تجربے نے ہمیشہ یہی سکھایا ہے، مغربی ممالک کسی بھی معاہدے سے کسی بھی وقت روگردانی کر سکتے ہیں، پھر چاہے اس میں دوسرے حریف کی مکمل تباہی ہی کیوں نہ ہو جائے۔

خطاب میں روسی صدر نے واضح طور پر کہا کہ روس اپنی سرحدوں پر کسی قسم کا تنازعہ نہیں چاہتا۔ انکا کہنا تھا کہ تسلسل کے ساتھ تنبیہ کرنے کے باوجود ہماری مغربی سرحد کو مسلسل عسکری سرگرمیوں کا مرکز بنایا جا رہا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ روس سنجیدہ لمبے عرصے کی منصوبہ بندی کرے، ہم ہر آنے والا دن اگلے دن کی بے یقینی کی فکر میں نہیں گزار سکتے۔

صدر پوتن نے چین کے ساتھ تعلقات کو اہمیت دیتے ہوئے کہا کہ ہم اپنے اچھے ہمسایہ ممالک اور ان کی قیادت کے ساتھ مل کر کام کرنے پر متوجہ ہیں، روس اور چین کے تعلقات 21ویں صدی کے ایک مثالی تعلقات ہوں گے۔ ہمیں احساس ہے کہ ان تعلقات سے سب خوش نہیں ہیں، اور ہم واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں کہ مغربی ممالک اس دوستی میں غلط فہمیاں اور دراڑ ڈالنے کی مسلسل کوشش میں مصروف ہیں لیکن ہم اپنے سیاسی و معاشی تعلقات کو مزید مظبوط کرنے پر رواں ہیں، اور مل کر عالمی منظر نامے پر کردار ادا کرتے رہیں گے۔

خطاب میں نیٹو کا حوالہ دیتے ہوئے صدر پوتن کا کہنا تھا کہ مغرب کی غیر محفوظ ذہنیت نے نیٹو کے ساتھ ہمارے منفرد تعلقات کو مکمل ختم کر دیا ہے۔ روس کی عسکری اتحاد کو مشرق کی طرف وسعت سے روکنے کی کوشش اور اس حوالے سے تحفظات کو نیٹو خصوصاً امریکہ نے مکمل نظر انداز کیا۔ یاد رہے کہ روس نے گزشتہ ماہ نیٹو سے اپنا سارا عملہ واپس بلا لیا تھا، روسی قدم نیٹو مرکزی دفتر کی جانب سے 8 روسی سفارت کاروں کو جاسوسی کے الزام میں نکالنے پر اٹھایا گیا تھا۔

اعلیٰ سفارتی عملے سے گفتگو میں صدر پوتن کا مزید کہنا تھا کہ روس امریکہ کے ساتھ جامعہ مذاکرات کا حامی تھا، لیکن امریکی رویہ اس میں بڑی رکاوٹ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جولائی میں صدر پوتن اور بائیڈن کے درمیان ہونے والی ملاقات سے وابستہ امیدیں بھی ناکام رہیں۔ صدر پوتن کا کہنا تھا کہ ہم عملی نتائج برآمد کرنے کے حامل مذاکرات چاہتے ہیں، اختلافات اپنی جگہ لیکن خیالات کا تبادلہ اور دلچسپی کے امور پر بات چیت ہو سکتی ہے۔ دنیا کو لاحق بیشتر مسائل کا حل بڑی قوتوں کے اتحاد میں ہے۔

مغربی ممالک کے دوہرے معیار کا ذکر کرتے ہوئے صدر پوتن کا کہنا تھا کہ پولینڈ کی سرحد پر جاری مہاجرین کے مسئلے کو سیاسی رنگ دے دیا گیا ہے، انتہائی سرد موسم میں انسانی بنیادوں پر مسئلے کو دیکھنے کے بجائے اسے یورپی یونین کے خلاف روسی سیاست گردانا جا رہا ہے۔

صدر پوتن کا کہنا تھا کہ مغربی ممالک کے شدید دباؤ، معاشی پابندیوں اور روس کو عالمی سطح پر علیحدہ کرنے کی بدترین کوششوں کے باوجود دنیا میں روس کا کردار بڑھ رہا ہے۔ روس عالمی مسائل میں اپنا کردار ادا کرتا رہے گا، دہشت گردی، بین الاقوامی جرائم، بڑے پیمانے پر تباہی مچانے والے ہتھیاروں کی روک تھام، غربت، ماحولیاتی مسائل اور معاشی ناانصافی جیسے مسائل مغربی ممالک کی روش کو نظر انداز کرنے کے لیے کافی ہیں۔

دوست و احباب کو تجویز کریں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

5 × 2 =

Contact Us