چین کی بڑھتی عسکری قوت کے پیش نظر پینٹاگون میں خصوصی اجلاس ہوا ہے۔ امریکی میڈیا کے مطابق اجلاس میں امریکی فضائیہ کے سربراہ اور مشترکہ افواج کے نائب، جان ہائیٹن نے اعلیٰ حکومتی عہدے داروں کو چینی فضائی قوت اور اس کے امریکہ کو ممکنہ خطرات سے آگاہ کیا۔
اجلاس چین کی جانب سے کچھ ہفتے قبل کیے مبینہ ہائپر سونک میزائل کے تجربے کے پیش نظر کیا گیا۔ اگرچہ اس تجربے کی چین نے واضح الفاظ میں تردید کی ہے تاہم امریکہ بضد ہے کہ چین نے ہائپر سونک میزائل کا تجربہ کیا اور امریکی میڈیا کے مطابق امریکی عسکری حکام اسے جوہری جنگ کی صورت میں چینی بتری کی صورت میں دیکھ رہے ہیں۔
امریکی حکام کو خوف ہے کہ آواز کی رفتار سے 5 گناء تیز میزائل ٹیکنالوجی نے چین کو پہلے اور کامیاب حملے کی صلاحیت سے لیس کر دیا ہے۔
معاملے پر امریکی فضائیہ کے سربراہ نے میڈیا سے بھی گفتگو کی ہے، جس میں ان کا کہنا تھا کہ (ہائپر سونک میزائل) ایک اہم صلاحیت ہے، جو صرف جنگ نہیں دنیا میں کسی کے اثروسروخ کو بھی بدل سکتی ہے۔ انکا کہنا تھا کہ چین نے کسی عام سے میزائل کا نہیں بلکہ دور تک مار کرنے والے خصوصی میزائل کا تجربہ کیا ہے، میزائل نے دنیا کا چکر لگایا، اور دوبارہ چین میں جا کر گرا، اور یہ ساری حرکات مکمل طور پر زمین سے کنٹرول کی جا رہی تھیں۔ صحافی کے سوال پر ہائیٹن کا کہنا تھا کہ اسکا نشانہ بھی اچوک تھا۔ ایک اور سوال کہ اس ہتھیار کا مقصد کیا ہو سکتا ہے ہائیٹن کا کہنا تھا کہ یہ عسکری برتری کا اعلان تھا، یہ پہلے حملہ کرنے کی صلاحیت کے اعلان کے علاوہ مجھے کچھ نہیں لگتا۔
واضح رہے کہ ہائیٹن کی رائے کو امریکی عسکری حلقوں میں بہت اہمیت حاصل ہے، وہ امریکی خلائی فوج، تذویراتی اور جوہری کمانڈ کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں۔
چینی دفتر خارجہ نے الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ چین نے صرف ایک خلائی جہاز کا تجربہ کیا، جو کامیاب رہا، معروف چینی اخبار گلوبل ٹائمز کے مدیر نے بھی امریکی میڈیا کے پراپیگنڈے کو مسترد کرتے ہوئے اداریہ لکھا کہ چین کبھی بھی مغربی ممالک کی طرح اسلحے کی دوڑ میں شامل نہیں ہو گا، چین اپنے وسائل کو عوامی فلاح پر استعمال کرنا چاہتا ہے اور اسی پر گامزن رہے گا۔ اداریے کی سرخی میں ہو شی جن نے لکھا کہ ہم جانتے ہیں کہ امریکہ چین کو 10 بار تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، لیکن چین کے لیے اتنا کافی ہے کہ وہ امریکہ کو ایک ہی بار میں مکمل تباہ کر دے، چین کو اس کے علاوہ کچھ نہیں چاہیے، اور نہ چین ایسی کسی دوڑ میں ہے۔
دوسری طرف امریکی مشترکہ فوج کے سربراہ جنرل مارک ملی نے چینی تجربے کو سرد جنگ کے دوران کامیاب سپوتنک لمحے سے تشبیہ دی ہے جس میں سوویت یونین کی جانب سے پہلے خلاء کو مسخر کرنے پر امریکہ کی راتوں کی نیندیں حرام ہو گئی تھیں۔ 1957 کے اس لمحے کے بعد امریکہ اور سوویت یونین میں باقائدہ کشیدگی کا آغاز ہوا اور دنیا دو حصوں میں بٹنا شروع ہو گئی۔
اپنے اعلیٰ حکام کی رائے سے ہائیٹن نے جزوی اتفاق کیا ہے انکا کہنا ہے کہ لمحہ تو انتہائی اہم ہے لیکن امریکہ نے سپوتنک کی طرز پر ہنگامی ردعمل نہیں دیا، جس کی امریکہ کو اشد ضرورت ہے۔
روسی نشریاتی ادارے رشیا ٹوڈے کے مطابق امریکی میڈیا پر خوف سے بھرپور ان خبروں کے ساتھ اسلحہ ساز امریکی کمپنیوں خصوصاً میزائل بنانے والی کمپنیوں کے اشتہارات بہت معنی خیز ہیں۔