کینیڈی پروفیسر جورڈن پیٹرسن نے ترقی پذیر ممالک پر ماحولیاتی آلودگی کو لے کر بڑھتے دباؤ پر مغربی حکومتوں پر کڑی تنقید کی ہے، انکا کہنا تھا کہ مغربی ممالک اس کا کوئی اخلاقی جواز نہیں رکھتے کہ وہ دیگر ممالک کو ماحول کو صاف رکھنے کی تلقین کریں، جبکہ یہ ساری آلودگی انہی امیر ممالک کی پیدا کردہ ہے۔ ان ممالک نے اپنی معیشت کو یہی سستے ایندھن جلا کر مظبوط بنایا، اور اب غریب کو اپنی مہنگی ٹیکنالوجی بیچنے کے لیے انہیں اخلاقی درس دیے جا رہے ہیں۔
برطانوی نشریاتی ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے پروفیسر پیٹرسنن کا کہنا تھا کہ اگر مغربی ممالک کو زمینی ماحول کا اتنا ہی احساس ہے تو انہیں یہ ٹیکنالوجی غریب ممالک کو سستی یا مفت فراہم کرنی چاہیے۔ آج بھی ان ممالک کا آلودگی میں حصہ امیر ممالک سے کم ہے، پھر کیوں زیادہ دباؤ ان پر ڈالا جا رہا ہے؟
پروفیسر پیٹرسن نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ مسئلے کا حقیقی حل ترقی پذیر ممالک کو ٹیکنالوجی کی فوری اور سستی فراہمی ہے، انہیں معاشی طور پر اپنے برابر کھڑا کر کے ہی اس عالمی مسئلے کا منصفانہ حل ممکن ہے، یہی حقیقی سنجیدہ کوشش ہو گی، غریب ممالک کو اخلاقی درس ایک غیر سنجیدہ کوشش اور ڈھونگ ہے۔
گفتگو میں شریک برطانوی نائب وزیر برائے روزگار کا کہنا تھا کہ ماحولیاتی مسئلے جیسے ایک عالمی مسئلے کی زمہ داری صرف امیر ممالک پر نہیں ڈالی جا سکتی، سب کو اس میں حصہ لینا ہو گا، جس پر پروفیسر پیٹرسن نے کہا کہ اسکی 100٪ زمہ داری امیر ممالک پر ہی عائد ہوتی ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ مغربی ممالک کے پاس اس حوالے سے کوئی بھی اخلاقی جواز ہے کہ غریب ممالک پر مہنگی ٹیکنالوجی کا دباؤ ڈالا جائے۔
پروفیسر پیٹرسن نے ماحولیاتی مسئلے پر اقوام متحدہ کی جانب سے 26ویں کانفرنس پر بھی تنقید کی اور کہا کہ اقوام متحدہ کی جانب سے غریب ممالک کی معیشت بہتر کرنے کے لیے اب تک کتنی کانفرنسیں ہو چکی ہیں؟