غلط نظریات کو تفریحی مواد کے ذریعے عام کرنا
امریکی تفریحی میڈیا صنعت خصوصاً فلموں اور ڈراموں کے بارے میں عام خیال ہے کہ یہ بغیر کسی سیاسی ایجنڈے کے تفریح فراہم کرنے کا بڑا ذریعہ ہیں۔ لیکن ماہرین کے مطابق مغربی تفریحی صنعت دنیا بھر میں حساس معاملات سے متعلق تہذیبی فہم اور سیاسی فکر کو بدلنے کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔ ماہرین کے مطابق اس صنعت کا سب سے اہم اور مرکزی بیانیہ غلط نظریات کو بار بار دکھا کر انہیں عام اور قابل قبول بنانا ہے۔ مثلاً شراب پینے، نشہ آور ادویات لینے، زناء، شادی سے الگ جنسی تعلق اور ہم جنس پرستی کے لیے بڑی نرمی سے ذہن سازی کی گئی ہے۔
سماجی ماہرین کے مطابق خصوصی طور پر ہالی ووڈ نے ہم جنس پرستی کو مقبولیت دلانے کے لیے بہت کام کیا ہے۔ اس کے لیے شروع میں مزاح کا سہارا لیا گیا کیونکہ انسانی نفسیات کے مطابق مزاح کے ذریعے بظاہر سخت نظریات کے لیے بھی انسانی سوچ میں گنجائش پیدا کی جا سکتی ہے۔ ہالی ووڈ کی معروف فلمیں دی ایٹرنلز، بروک بیک ماؤنٹین، آئی ناؤ پروناؤنس یو چَک اینڈ لیری اس حوالے سے نمایاں ہیں۔ جبکہ ڈراموں میں معروف مزاحیہ پروگرام فرینڈز میں 1996 میں ہم جنس پرستی پر باقائدہ قسطیں شائع ہوتی رہی ہیں۔ یاد رہے کہ مغربی میڈیا کی ان محرکات کے خلاف ان ممالک کے اندر سے بھی آوازیں اٹھتی رہی ہے مثلاً کئی امریکی ریاستوں (اوہائیو، ٹیکساس، پورٹ آرتھر نے فرینڈز کی ان اقساط پر پابندی لگادی جن میں اس غیر فطری عمل کی تشخیرکی گئی تھی۔ تاہم مقامی مذہبی اور روایت پسند حلقے زیادہ دیر تک اس یلغار کو روک نہ سکے اور مرکزی حکومتوں نے اسی مزاحمت کو بنیاد بنا کر ہم جنس پرستی کے حق میں قانون سازی کی ۔ ماہرین کے مطابق مغربی ذرائع ابلاغ کی بےراہ روی بڑھانے کی اگلی مہم محرمات سے ہم بستری ہے۔
پینٹاگون اور سی آئی اے کا کردار
یہ بات اب عوامی معلومات کا حصہ ہے کہ امریکی دفاعی مرکز پینٹاگون میں تفریحی صنعت کے لیے خصوصی شعبے کا قیام 1948 میں کیا گیا تھا۔معلومات تک رسائی کے قانون کے تحت یہ بات سامنے آئی ہے کہ پینٹاگون نے 1911 سے 2017 کےدوران عالمی اجارہ داری کے مقصد کے تحت کم از کم 800 فلمیں بنوائیں۔ ان میں ٹرانسفارمر، آئرن مین اور ٹرمینیٹر جیسے نام شامل ہیں۔اس میدان میں ڈراموں کی تعداد فلموں سے بھی زیادہ ہے اور پینٹاگون نے کم از کم 1100 ڈراموں کو خاص لبرل سیاسی فکر کی مقبولیت کے لیے پروڈیوس کروایا۔واضح رہے کہ ڈراموں کے بڑھتے اثرورسوخ کی وجہ سے سن 2005 سے 2017 کے دوران پینٹاگون نے 900 ڈراموں کے ذریعے اپنی خاص لبرل سیاسی فکر کو عام کیا ہے۔ان میں فلائیٹ 93، آئس روڈ ٹرکر اور آرمی وائیوز نمایاں ہیں۔سی آئی اے نے ان مقاصد کے لیے الفریدو جیمز پاکینو کو خصوصی طور پر استعمال کیا۔ دی ریکروٹ اور اسامہ بن لادن پر بنی فلم زیرو ڈارک 30 بھی سی آئی اے کا ہی شاخسانہ ہیں۔دستاویزات کے مطابق دی سوسائیڈ سکواڈ سی آئی اے کی شاہکار فلم مانی جاتی ہے، جس کے ذریعے سی آئی اے نے عالمی سطح پر ان مقاصد کو حاصل کیا جو ویسے ناممکن تھا۔یعنی ہالی ووڈ فلمیں جنوبی امریکہ اور مشرق وسطیٰ میں بظاہر سی آئی اے کےگورکھ دھندوں کو عیاں کرنے لیکن حقیقت میں امریکی دھاک بٹھانے کے لیے ایک آلہ کار بنا ہوا ہے۔
مغربی میڈیا اور سیاستدانوں کا گٹھ جوڑ
واضح رہے کہ امریکہ میں 6 کمپنیاں پورے ملک کا ذرائع ابلاغ کنٹرول کرتی ہیں، ان میں اخبارات، میگزین، اشاعت خانے، ٹی وی، کیبل نیٹ ورک، ہالی ووڈ سٹوڈیو، میوزک برانڈ اور حتیٰ کہ معروف ویب سائٹیں بھی شامل ہیں۔یہ کمپنیاں ہیں ٹائم وارنر، والٹ ڈزنی، وایا کام روپرٹ مردوخ نیوز کارپوریشن، سی بی ایس کارپوریشن اور این بی سی یونیورسل ہیں۔ دنیا کی سب سے بڑی آن لائن میڈیاکمپنی گوگل بھی امریکی ہے، اس کے بعد والٹ ڈزنی ، کامکاسٹ، ٹونٹی فرسٹ سینچری فاکس اور سی بی ایس کارپوریشن کا نمبر آتا ہے اور یہ بھی امریکی کمپنیاں ہیں۔
یاد رہے کہ امریکہ میں ذرائع ابلاغ اور سیاسی اشرافیہ کا مظبوط گٹھ جوڑ ہے، اس میں دونوں بڑی جماعتوں کے سینٹر اور ارکان اسمبلی شامل ہیں۔ انہی کے ذریعے امریکی عوامی بیانیہ کنٹرول کیا جاتا ہے اور پھر دنیا بھرپر اپنااثرورسوخ قائم کیا جاتا ہے۔
لذت اور خوشی عقیدہ حیات
جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا ہے کہ امریکی تفریحی صنعت غلط نظریات کو مقبول بنانے کے لیے کام کرتی ہے، اس نظریے کی بنیاد جس عقیدے پر مبنی ہے اسے لذت پرستی کہا جاتا ہے۔ہیڈونزم نامی یہ عقیدہ مغربی لبرل اخلاقی ماہرین نے ایجاد کیا ہے، جس کے مطابق انسان کی زندگی کا مقصد لذت حاصل کرنا ہے، چاہے وہ کسی بھی طرح سے حاصل کیا جائے۔مغربی مفکرین کے مطابق عقیدہ یورپی پادریوں کی جانب سے مقامی آبادی پر سخت پابندیوں کی ضد میں سامنے آیا، جس کے تحت عیسائیوں پر نجی خوشی و لذت کے لیے کسی بھی عمل پر پابندی تھی۔ حتیٰ کہ شادی کے بعد بچے کی پیدائش کو بھی حرام عمل کا نتیجہ گردانا جاتا تھا اور اسی سوچ کے تحت نومولودکو کلیسا میں خصوصی غسل دیا جاتا تھا۔نظریہ لذت پرستی کے مطابق انسان پر لذت کے حصول کے لیے کوئی پابندی نہیں، اور وہ اس کے حصول کے لیے کچھ بھی کر سکتا ہے۔ یہی نظریہ حیات امریکی و یورپی فلموں اور ڈراموں کے ذریعے دنیا بھر میں نشر کیا جاتا ہے۔
مغربی تفریحی صنعت ہر دس برس کے لیے ایک خاص ایجنڈے پر کام کرتی ہے، اور اس میں اسکا خصوصی نشانہ مسلم دنیا رہی ہے۔ اس تہذیبی یلغار کا مقصد دنیا بھر میں اس کے تجویز کردہ لبرل طرز حیات کو مقبول بنانا ہے۔ اسی مقصد کے تحت اسلامی شعار کو بوسیدہ اور مغربی طرز حیات کو کامیاب و دلکش دکھایا جاتا ہے۔مقصد کو حاصل کرنے کے لیے چھوٹے سے بچے کے لیے کارٹون سے لے کر بوڑھوں کے لیے خاص نقطہ نظر کی فلمیں و ڈرامے بنائے جاتے ہیں۔ان فلموں اور ڈراموں میں انسانی لالچ، ہوس اور خواہشات کو ابھارا جاتا ہے، اس کی راہ میں رکاوٹ بننے والے سماجی حلقوں اور اداروں کو بدنام کیا جاتا ہے، اور انہیں بطور شر بدنام کیا جاتا ہے۔کم سن ذہنوں میں ناقص اور متعصب معلومات پر مبنی سوالات ٹھونسے جاتے ہیں اور ساتھ ہی ان کے جواب کی تلاش کے حوالے سے خوف پیدا کیا جاتا ہے۔ انسانی نفسانی خواہشات کو عین فطری پیش کر کے اس کے خلاف الہامی تعلیمات کا مذاق بنایا جاتا ہے۔اس نظریہ حیات کو خوبصورت دکھانے کے لیے پراپیگنڈہ کیا جاتا ہے کہ اگر آپ کسی کو نقصان نہ پہنچائیں تو اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے حرام کام بھی کر سکتے ہیں۔ایسے میں بچپن سے اس نظریہ حیات کے تحت پروان چڑھنے والے بچوں میں مذہب اور اسکی تعلیمات کے خلاف بغاوت پختہ ہو چکی ہوتی ہے ۔ایسے بچے اپنے فیصلے اس اصول کے تحت کرتے ہیں کہ انہیں کس چیز سے نفسانی خوشی و لذت ملے گی اور کس سے خوشی چھن جائے گی۔ یوں انسان بظاہر خوشی کے لیے کوشش میں ہوتا ہے لیکن فطرت کے عین برعکس ہونے کےباعث نہ صرف اپنی زندگی بلکہ اپنے خاندان اور معاشرے کو بھی شدید نقصان پہنچاتا ہے۔مثلاً نشہ آور ادویات کا استعمال کسی بھی طرح لذت کا باعث نہیں ہے، انفرادی و سماجی سطح پر اسکے نقصانات سب پر عیاں ہیں، لیکن اس کی لذت کو جس صورت میں فلموں ڈراموں میں دکھایا جاتا ہے، اسے استعمال کرتے ہوئے مفلوج ذہن اسی لذت کو محسوس کرنے کی اداکاری کرتا ہے لیکن حقیقت میں وہ سب کچھ تباہ کر رہا ہوتا ہے۔یوں جنسی حیوانگی اور دیگر معاملات سے متعلق تجزیہ بھی کیا جا سکتا ہے۔
انسان فطری طور پر نقال پیدا ہوا ہے، یہی وجہ ہے کہ اس کے خالق نے اس کے لیے مکمل رہنمائی کا بندوبست کیا۔ اس کے لیے اس جیسے پیغمبر بھیجے، جنہوں نے انسان کو وہ طرز حیات جی کر دکھایا جو اس کے لیے بہتر ہے، اور رہتی انسانیت کے لیے کتاب مبین عطافرمائی۔ سورۃ مائدہ کی آیت نمبر 49 میں اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہےکہ کسی بھی عمل/فیصلےسے قبل اس کا تجزیہ اس (کتاب) سے کرو جو تم پر نازل کی گئی، خبردار شیطان اور شیطانی ترغیب کے پیچھے مت چلنا، وہ کہیں تمہیں گمراہ نہ کر دے۔
یاد رہے کہ ایسے نظام/معاشرے کا قیام جس میں تمام بنی نوع انسان احکام خداوندی پہ آسانی سے عمل کر سکے اور پر امن زندگی گزار سکے،انسانی معاشرے کی بنیادی ضرورت ہے، اور اس کی کوشش ہر مسلمان پر فرض ہے۔
حسن شہزاد وڑائچ – شعبہ قانون، جامعہ پنجاب