امریکی خلائی فوج کے اعلیٰ عہدے دار جنرل ڈیوڈ تھامپسن نے اعتراف کیا ہے کہ ہائپر سونک میزائل ٹیکنالوجی میں امریکہ روس اور چین سے بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ جنرل تھامپسن کے مطابق اس کمی کی وجہ امریکی انتظامیہ اور اس پر ہونے والے اخراجات ہیں۔
خلائی فوج کی کارروائیوں کے نائب سربراہ کا کہنا تھا کہ اگر ہائپر سونک ٹیکنالوجی کی بات کی جائے تو امریکہ چین اور روس سے بہت پیچھے ہیں۔ بین الاقوامی ہیلی فیکس سکیورٹی فورم سے خطاب میں جنرل تھامپسن کا کہنا تھا کہ ہمیں اس کمی کو پورا کرنے کے لیے تیزی دکھانا ہوگی۔
تھامپسن کا کہنا تھا کہ یہ تمام مسائل امریکی بیوروکریسی اور سرمایہ کاری کے حوالے سے غلط ترجیحات کے باعث درپیش ہیں۔ ہمیں سستی ترک کر کے، جوش دکھانا ہو گا، شروع میں اس حوالے سے بہت سی غلطیاں، اور رسک بھی ہے لیکن یہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔
واضح رہے کہ ہائپر سونک ٹیکنالوجی کو دفاع کے لیے انتہائی اہم اور حساس گردانا جارہا ہے، آواز کی رفتار سے بھی 5 گناء زیادہ تیز میزائل ریڈار اور دفاعی نظام وک بھی چکمہ دے سکتا ہے، جبکہ دوران پرواز سمت بدلنے کی صلاحیت اسے دشمن کے تمام منصوبے ناکام کرنے کی قوت سے بھی لیس کر دیتا ہے۔
امریکی اعلانات کے مطابق امریکہ 2023 تک دور تک وار کرنے والے ہائپر سونک میزائل تیار کرنے میں کامیاب ہو سکتا ہے، امریکی بحریہ کو یہ قوت دینے میں مزید 2 برس لگیں گے اور 2025 تک عملی طور پر امریکہ پوری طرح اس ٹیکنالوجی کا حامل ملک قرار پا سکتا ہے۔
روس نے گزشتہ ماہ ہائپر سونک کا تجربہ کر لیا ہے جبکہ چین نے رواں سال آگست میں اس میزائل کا تجربہ کیا ہے، جس نے امریکی انتظامیہ کی نیندیں حرام کی ہوئی ہیں۔ یاد رہے اس حوالے سے چین نے امریکی خبروں کی تردید کی ہے، لیکن امریکہ کو یقین ہے کہ چین نے اسی ٹیکنالوجی کا کامیاب تجربہ کیا ہے۔
امریکی جنرل نے چین کو خلائی ٹیکنالوجی میں امریکہ سے کئی گناء آگے ہونے اور مستقبل میں اس سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی حیثیت میں ہونے کا اعتراف بھی کیا ہے۔ جنرل تھامپسن کا مزید کہنا تھا کہ اگر انکی ترقی کی رفتار یہی رہی تو امریکہ اس دوڑ میں بہت پیچھے رہ جائے گا۔