امریکی ابلاغی ٹیکنالوجی کمپنی میٹا المعروف فیس بک اور انسٹاگرام نے متعصب سیاسی وابستگی کی ایک اور بدترین مثال قائم کر دی ہے، دور جدید میں انسانی معاشرے خصوصاً جوانوں پر بدترین نفسیاتی اثرات چھوڑنے والی ابلاغی کمپنیاں اب صارفین کو نفرت آمیز مواد شائع کرنے نہ تو روکیں گی اور نہ ہی انکا شائع کردہ مواد ویب سائٹوں سے ہٹایا جائے گا، بشرط یہ کہ مواد روس کے خلاف ہو۔
رائٹرز کی انکشافات سے بھرپور رپورٹ کے مطابق میٹا کے نفرت انگیز مواد سے متعلق پالیسی کا اطلاق صرف کچھ ممالک پر ہو گا، جبکہ باقی ممالک پر پالیسی اپنی روح کے مطابق عمل نہیں کرے گی۔ رائٹرز نے فیس بک اور انسٹاگرام کے ملازمین کی باہمی ای میلوں کے لیک ہونے سے حاصل معلومات کی بنیاد پر رپورٹ شائع کی ہے۔
رائٹرز نے خبر کی سرخی لگاتے ہوئے کہا کہ؛ فیس بک اور انسٹاگرام روس کے خلاف نفرت انگیز مواد شائع کرنے کی عارضی اجازت دے رہی ہیں۔ سرخی کو فیس بک کی جانب سے مصالحہ دار خبر قرار دینے پر بدل دیا گیا اور لکھا گیا کہ فیس بک اور انسٹاگرام پر صدر پوتن کے قتل/موت، اور روسی حملے کے خلاف شدت انگیز پیغامات شائع کیے جا سکیں گے۔
فیس بک کے ترجمان نے اپنی وضاحت میں کہا ہے کہ “روس کے یوکرین کے خلاف جارحیت کے نتیجے میں ہم نے عارضی طور پر کچھ سیاسی خیالات کو شائع کرنے کی اجازت دی ہے، جن میں روسی حملہ آوروں کے لیے موت جیسے پیغامات شائع کرنے کی اجازت ہو گی، واضح رہے کہ یہ اجازت روسی عوام کے خلاف موت یا ایسے شدت پسند پیغامات شائع کرنے کے لیے استعمال نہیں کی جا سکے گی۔
رائٹرز نے اپنی رپورٹ میں مزید لکھا ہے کہ میٹا روسی صدر ولادیمیر پوتن، اور بیلا روس کی قیادت الیگزینڈر لوکاشینکو کے خلاف شائع ہونے والے مواد کو بھی تلف نہیں کرے گا۔ رائٹرز کے مطابق اس حوالے سے مواد کا جائزہ لینے والے عملے کو ہدایات جاری کر دی گئی ہیں۔ رپورٹ میں واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ اس اجازت میں صدر پوتن اور لوکاشینکو کے خلاف موت کے پیغامات کی اجازت شامل ہے، بشرط یہ کہ اس میں عوام کے لیے موت کے الفاظ شامل نہ ہوں۔
رائٹرز کو موصول ہونے والی لیک ای میل میں یہ بھی شامل ہے کہ اگر کسی پیغام میں روسی عوام نہ لکھا ہو اور کسی بھی طرح نفرت انگیزی کا حوالہ یوکرین جنگ سے جڑتا لگتا ہو تو ایسے مواد کو بھی تلف نہیں کیا جائے۔
جن ممالک میں اس متعصب پالیسی کو اپنایا گیا ہے ان میں نمایاں لاتویا، لتھوانیا، سلوواکیا، ہنگری اور رومانیہ نمایاں ہیں، جو یوکرین کے ہمسایہ یا روسی اثرورسوخ والے ممالک ہیں۔
روس نے اس شدت پسند پالیسی کے خلاف ردعمل دیتے ہوئے ملک میں فیس بک اور انسٹاگرام پر پابندی عائد کر دی ہے۔
یاد رہے کہ امریکی ابلاغی ٹیکنالوجی کمپنیاں پہلے ہی روسی ابلاغی اداروں پر اشاعت کی پابندی لگا چکے ہیں۔
واضح رہے کہ مغربی ممالک میں روسی کاروباروں، شہریوں حتیٰ کہ آرتھوڈاکس کلیساؤں پر حملوں کی خبریں سامنے آ رہی ہیں۔ امریکہ واشنگٹن میں سرائے ابیض کے قریب ایک روسی نام کے ریسٹورنٹ پر حملہ بھی اس میں شامل ہے، جس کا مالک روسی نہیں، دراصل ایک امریکی ہی شہر ہے لیکن حملہ آور نے اسے روسی ریسٹورنٹ سمجھتے ہوئے نشانہ بنایا۔ مغربی شدت پسند نفرت انگیز پیغامات، آتش زدگی اور دیگر طریقوں سے روسی اور آرتھوڈاکس کلیساؤں پر حملے کر رہے ہیں۔
روس اور اس کے شہریوں کے خلاف نفرت صرف عام شہریوں میں ہی نہیں بلکہ مغربی اشرافیہ میں بھی کھل کر سامنے آرہی ہے۔ رکن کاگریس ایریک سوالویل نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ امریکہ سے روسی طلباء کو ملک بدر کر دیا جائے، جبکہ سابق امریکی صدر باراک اوباما کے دور میں ماسکو میں امریکی سفارت کار مائیکل میک فاؤل نے اپنے خصوصی پیغام میں کہا ہے کہ کوئی بھی روسی معصوم نہیں ہو سکتا، یہ سب جانبدار اور قابل نفرت ہیں۔
اس کے علاوہ روسی کھلاڑیوں کو بین الاقوامی مقابلوں سے روکنے کے لیے بھی مغربی اتحاد دنیا بھر میں ممالک پر دباؤ بڑھا رہا ہے، اور اس نفرت کا نشانہ روسی النسل جانور بھی بن رہے ہیں، جن کی تجارت پر پابندی لگا دی گئی ہے۔