پاکستانی سینٹ چیئرمین کے بعد ہنگری کے وزیرخارجہ پیٹر سزیجارتو نے بھی ترک صدر رجب طیب ایردوعان کو امن کے نوبل انعام کے لیے نامزد کر دیا ہے۔ اپنے ترک ہم منصب میولود چاؤش اوعلو کے ہمراہ ذرائع ابلاغ سے گفتگو میں یورپی ملک کے عہدے دار کا کہنا تھا کہ یوکرین میں خون ریزی کو روکنے کے لیے کی جانے والی کوششوں کے لیے ترک صدر کو امن کے نوبل انعام کے لیے ضرور زیر غور رکھنا چاہیے۔ انکا کہنا تھا کہ بحیرہ اسود سے اناج کی ترسیل کے حوالے سے معاہدے کی کامیابی اور امن کے لیے کوششوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
ہنگری کے وزیرخارجہ نے مغربی ممالک کے میڈیا پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ میڈیا کو اپنے رویے پر نظر ثانی کرنی چاہیے، جو کوئی روس کے ساتھ امن کی بات کرتا ہے اسے روسی صدر پوتن کا حامی قرار دے دیا جاتا ہے، اور تو اور اسے کریملن کا پراپیگنڈہ گرداننا شروع کر دیا جاتا ہے، یہ رویہ درست نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ میڈیا کو ترک صدر کی طرح مذاکرات کی اہمیت پر زور دینا چاہیے اور یورپی ممالک کو یورپ میں امن کے لیے کوششوں پر ترک صدر کا مشکور ہونا چاہیے۔
واضح رہے کہ نیٹو رکن ہونے کے باوجود ترکی نے یوکرین کے مسئلے پر نیٹو روس تنازعہ میں غیرجانبداری کی پالیسی اپنائی ہے۔ اور صدر ایردوعان نے نہ صرف یوکرین صدر بلکہ روسی صدر سے بھی کئی ملاقاتیں کیں ہیں، اس کے علاوہ عالمی اناج کی ترسیل کو یقینی بنانے کے لیے بحیرہ اسود جیسے اہم معاہدے کو یقینی بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔
ترکی، استنبول میں امن مذاکرات میں بھی بڑی کامیابی حاصل کر سکتا تھا تاہم دیگر وجوہات کے باعث ایسا نہ ہو سکا۔ اس حوالے سے کسی حریف نے وجوہات بیان نہیں کیں البتہ ترکی کی حکمران جماعت آق پارٹی کے ایک اعلیٰ عہدے دار نعمان کرتلمش کے مطابق امریکہ اور اس کے اتحادی امن امن معاہدہ نہیں چاہتے تھے۔