چین نے یوکرین تنازعہ کو ختم کرنے کے لیے 12 نکاتی ایجنڈا دے دیا۔ دنیا کی دوسری بڑی معیشت نے عالمی قوتوں پر زور دیا ہے کہ امن کی تمام کوششوں کو ایک موقع دینا ہو گا۔
وزارت خارجہ کی ویب سائٹ پر جاری بیان میں دونوں فریقین کو مخاطب کرتے ہوئے ایشیائی ملک کا کہنا تھا کہ تحمل اور حکمت کو اپنانے کی اشد ضرورت ہے۔ تمام بین الاقوامی قوتوں کو چاہیے کہ روس اور یوکرین کی تنازعے کے خاتمے کے لیے حمایت اور ہر ممکن مدد کریں۔ چین کا مؤقف ہے کہ دونوں حریفوں کو بلاواسطہ بات چیت کی میز پر بیٹھنا چاہیے اور جلد از جلد کم از کم جنگ بندی پر اتفاق کرنے پہ توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔
چین کا کہنا ہے کہ وہ تنازعے کے پر امن حل کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھے گا۔
بیان میں ایک بار پھر چین نے مغربی ممالک پر زور دیا ہے کہ انہیں سرد جنگ کی ذہنیت سے فوراً نکلنے کی ضرورت ہے۔ ساری توجہ عسکری قوت پر مرکوز کر کے، اسلحے کے انبار لگا کر امن قائم نہیں کیا جا سکتا۔ پیچیدہ مسئلوں کے سادہ حل ممکن نہیں، بڑے ممالک کو تقسیم کرنے کے رویے کو ترک کرنا چاہیے اور ایک متوازی حکمت عملی بنانی چاہیے جس میں یورپی امن کو یقینی بنایا جا سکے۔
خصوصی بیان میں چین نے روسی جوہری تنصیبات پر حملے کی شدید مذمت بھی کی ہے اور کہا ہے کہ دنیا کسی ایسے حادثے کی متحمل نہیں ہو سکتی۔
چین نے روس پر ایسی تمام معاشی پابندیوں کی بھی مخالفت کی ہے جنہیں باقائدہ اقوام متحدہ کے ذریعے نہ لگایا گیا ہو۔ چین کا مؤقف ہے کہ معاشی پابندیاں اور سیاسی دباؤ سے مسائل حل نہیں ہوتے، بلکہ ان میں ضد کا عنصر پیدا ہونے سے مسائل بڑھ جاتے ہیں۔
واضح رہے کہ چین نے روس یا یوکرین کو کسی قسم کے ہتھیار فراہم نہیں کیے، اور ایشیائی ملک کا مؤقف ہے کہ اس سے جلتی کو تیل ملے گا اور جنگ بندی میں مزید تاخیر ہو گا۔ اس کے علاوہ چین نے مغربی ممالک کی جانب سے روس پر عائد پابندیوں کی نہ صرف حمایت سے انکار کیا بلکہ اس کی مذمت بھی کی ہے۔ چین کا کہنا ہے کہ اس سے تنازعہ مزید طول پکڑے گا۔