سعودی عرب اور ایران نے 7 سال بعد سفارتی تعلقات بحال کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ دونوں ممالک کے مابین تعلقات اس وقت مکمل طور پر منقطع ہو گئے تھے جب تہران میں واقع سعودی سفارت خانے پر 2016 میں مظاہرین کی جانب سے حملہ کیا گیا تھا۔
مشرق وسطیٰ کے دونوں اہم ممالک میں تعلقات کی بحالی میں چین نے ثالث کا کردار ادا کیا ہے۔ ذرائع کے مطابق سارے عمل میں کئی ماہ کا وقت لگا، اور دونوں ممالک نے آئندہ دو ماہ کے اندر سفارتی تعلقات کے ساتھ ساتھ تمام حوالوں سے پیش قدمی کا عندیا دیا ہے۔
معاہدے کے مطابق دونوں ممالک ایک دوسرے کی خود مختاری کا احترام کریں گے اور اندرونی مسائل میں بالکل مداخلت نہیں کریں گے۔ اس کے علاوہ 2001 میں ہوئے سکیورٹی تعاون کے معاہدے کو بھی بحال کرنے کا اعلان کیا گیا ہے، جس کے تحت مقامی و عالمی امن اور سکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے مشترکہ کام کیا جائے گا۔
یاد رہے کہ دونوں ممالک نے اس سے قبل عراق اور عمان میں بھی بات چیت کی کوشش کی تھی تاہم نتیجہ خیز معاہدہ اب سامنے آیا ہے۔
سُنی سعودی عرب اور شیعہ ایران نہ صرف مختلف فرقے بلکہ قومی حوالے سے بھی مخالفت رکھتے ہیں، 9/11 کے بعد شروع ہونے والی جنگوں خصوصاً عراق اور شام میں ایرانی کردار کے ساتھ ساتھ ماضی قریب میں یمن میں مداخلت نے دونوں ممالک کو آمنے سامنے لا کھڑا کیا، اس کے علاوہ 2011 میں شروع ہونے والے مظاہروں اور کچھ چھوٹے گروہوں مثلاً حزب اللہ کے بڑھتے اثرو رسوخ اور لبنان میں کردار پر بھی عرب ملک شدید تشویش رکھتا ہے۔
چین کی جانب سے دونوں روائتی حریفوں کو معاہدے پر قائل کرنا عالمی سطح پر زیر بحث آرہا ہے، اور اسے چین کی بڑی سفارتی کامیابی گردانا جا رہا ہے۔ ماہرین چین کے یوکرین میں کردار کے حوالے سے پہلے سے ہی مثبت پیش گوئیاں بھی کرنے لگے ہیں۔ اگرچہ نیٹو اور امریکہ پہلے ہی اس حوالے سے چین کی جانب سے 12 نکاتی کلیے کو مسترد کر چکے ہیں۔