امریکہ میں خودکشی کے رحجان میں مزید 2.6 فیصد کا اضافہ ہو گیا ہے۔سال 2022 کے دوران عالمی طاقت کے 49 ہزار 449 شہریوں نے اپنی جان کا خود خاتمہ کیا۔
امریکی ادارہ برائے انسداد امراض کے مطابق 2021 میں خود کشی کے رحجان میں 5 فیصد اضافہ ہوا تھا جو اس بات کی علامت ہے کہ شہریوں کی ذہنی صحت کتنی بری حالت میں ہے۔
ادارہ جاتی رپورٹ میں حکومت کو تنبیہ کی گئی ہے کہ اعدادوشمار شہریوں کی ذہنی صحت کے حوالے سے ایک عندیا ہیں۔ صورتحال تاریخ کے بدترین دور کی عکاسی کرتی ہے۔
حکومتی مشیر برائے ذہنی صحت نے رپورٹ کے حوالے سے میڈیا سے گفتگو میں کہا ہے کہ ذہنی صحت کے حوالے سے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنے کی اشد ضرورت ہے وگرنہ آئندہ برسوں میں اسے سنبھالنا مشکل ہو جائے گا۔
واضح رہے کہ خودکشی کرنے والے افراد میں بڑی تعداد بزرگوں کی ہے۔ رپورٹ کے مطابق 65 یا اس سے زیادہ عمر کے افراد میں خود کشی کے رحجان میں 8.1 فیصد کا حد درجہ اضافہ ہوا ہے۔ اور 2022 میں 10 ہزار 433 بزرگوں نے اپنی زندگی کا خود خاتمہ کیا۔ 2007 سے 2021 کے دوران اس عمر کے افراد میں خود کشی کے رحجان میں 62 فیصد کا اضافہ ہوا تھا، جبکہ 2021 سے 2022 کے دوران ایک سال میں 8.1 فیصد کا اضافہ دیکھنے میں آیا یے۔
خود کشی جیسی لعنت کا رحجان صرف بزرگوں میں نہیں ہے، جوانوں میں بھی اس حوالے سے خوفناک صورتحال کی عکاسی ہو رہی ہے۔ اعدادوشمار کے مطابق 18.4 فیصد امریکی نوجوان ڈپریشن یا سٹریس کا علاج کروا رہے ہیں، یا خود سے ان امراض کی ادویات استعمال کر رہے ہیں۔ یعنی ہر پانچ میں سے ایک امریکی نوجوان ذہنی مرض کا شکار ہے۔
ایک اور عوامی سروے کے مطابق نوجوانوں میں 57 فیصد نے ناامیدی اور مسلسل افسردگی کے جذبات کا اظہار کیا ہے۔ جبکہ ہر دس میں سے 9 امریکیوں کا ماننا ہے کہ امریکی شہری کسی نا کسی ذہنی مرض میں مبتلا ہیں۔ یعنی امریکی شہریوں کے خیال میں امریکہ کی 90 فیصد آبادی ذہنی و نفسیاتی امراض کا شکار ہے۔
محکمہ صحت کے اہم ذمہ دار کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے امریکی تعلیمی نظام و سماجی رویہ بھی بڑا ذمہ دار ہے جس میں کسی سے مدد طلب کرنا کمزوری کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ لوگ ایک دوسرے پر اعتماد نہیں کرتے اور تنہائی میں ذہنی امراض کا شکار ہو رہے ہیں۔