برطانیہ کے سابق سیکرٹری خارجہ ڈیوڈ اوون نے اپنی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت کو تسلیم کر لینا چاہیے کہ 1953 میں ایرانی منتخب حکومت کو برطرف کرنے میں برطانیہ کا بھی کردار تھا۔ 1977 سے 1979 تک یورپی ملک کے سیکرٹری خارجہ رہنے والے اعلیٰ برطانوی عہدےدار کا ماننا ہے کہ اس اعتراف سے برطانیہ ایران میں حکومت مخالف تحریک اور اصلاحات کی طلب کرنے والے گروہ کی مدد کر سکتا ہے۔
ڈیوڈ اوون نے برطانوی نشریاتی ادارے سے گفتگو میں کہا کہ ہمیں تسلیم کرنا چاہیے کہ اس وقت کا ہمارا کردار منفی تھا اور ہم ایران کے ایک جمہوری ریاست بننے میں رکاوٹ بنے۔ اور اب اس غلطی کا اعتراف کر کے ہم ایران میں مثبت تبدیلی کا باعث بن سکتے ہیں۔
واضح رہے کہ دس سال قبل امریکہ نے سابق حکومتی دستاویزات (ڈی کلاسیفائیڈ) عیاں کر کے اس بات کا اعتراف کر لیا تھا کہ ایران میں محمد مصدق کی حکومت کو برطرف کرنے کے لیے امریکہ اور برطانیہ نے مشترکہ کردار ادا کیا تھا۔ آپریشن بوٹ نامی منصوبے میں امریکی جاسوس ادارے سی آئی اے اور برطانوی ایم آئی 6 نے مشترکہ کام کیا تھا۔
اس وقت بھی برطانوی حکومت نے اس حوالے سے کسی اعتراف یا انکار سے انکار کیا تھا اور مؤقف اپنایا تھا کہ برطانوی حکومت جاسوس اداروں کی کارروائیوں پر تبصرے نہیں کرتی۔
اس حوالے سے روسی نشریاتی ادارے رشیا ٹوڈے کا کہنا ہے کہ ایران کے خلاف کارروائی دراصل برطانیہ کی کارستانی تھی، 1951 میں ایران میں منتخب اور مقبول حکومت کے قائم ہونے اور اس کی جانب سے تیل کو قومیانے کے بعد برطانیہ نے محمد مصدق کی حکومت برطرف کرنے کا منصوبہ بنایا۔ تاہم اس وقت کے امریکی صدر ہیری ٹرومین نے اس کا حصہ بننے سے انکار کر دیا۔ البتہ امریکہ میں انتخابات کے بعد برطانوی وزیراعظم ونسٹن چرچل، نئے امریکی صدر ڈوائٹ آئزن ہوور کو قائل کرنے میں کامیاب رہے اور یوں دونوں ملکوں نے مل کر ایران میں حکومت کا تختہ الٹ دیا۔
منصوبے کے تحت محمد مصدق کے خلاف سخت ترین بدعنوانی کی مہم چلائی گئی اور ایک مقبول حکومت کو امریکی ستائش حاصل اشرافیہ کے ذریعے بدنام کر کے دھرنے اور بدانتطامی پیدا کی گئی۔ اس طرح رضا شاہ پہلوی کی اقتدار میں راہ ہموار کی گئی تاہم ایک غیر مقبول حکومت ہونے کے باعث وہ زیادہ نہ چل سکی اور ایران بالآخر اسلامی انقلاب کا شکار ہو گیا۔
برطانوی سابق سیکرٹری خارجہ کا ماننا ہے کہ برطانیہ کو اپنی غلطی کا اعتراف کر کے اصلاح پسندوں کی مدد کرنی چاہیے، جبکہ اس سے عالمی سطح پر برطانیہ کی مقبولیت میں بھی اضافہ ہو گا۔