کینیڈا میں غلامی پروان چڑھ رہی ہے۔ اقوام متحدہ کے ایک سماجی علوم کے ماہر تومویا اوبوکاتا نے خصوصی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ کینیڈا میں عارضی مزدوری کے لیے آنے والے سالانہ 60 ہزار افراد بدترین شرائط اور حالات میں کام کرتے ہیں، اور حقیقت میں یہ غلامی کی یاد تازہ کرنے کے مترادف ہے۔
غلامی کی اقسام نامی رپورٹ کو سماجی امور کے ماہر نے دو ہفتے پر مبنی تفصیلی تحقیق کے بعد مرتب کیا ہے۔ تومویا کا کہنا ہے کہ یہ مزدور دور حاضر کی بدترین غلامی کا شکار ہیں۔ ان کا بدترین استحصال کیا جاتا ہے اور شرائط اتنی سخت ہیں کہ وہ آواز بھی نہیں اٹھا سکتے۔
اقوام متحدہ انسانی حقوق کے زیر تحت مرتب کی گئی رپورٹ میں عارضی غیر ملکی مزدوروں کے منصوبے کے تحت آنے والے مزدوروں کا سروے کیا گیا ہے۔ جس میں سامنے آیا ہے کہ ہر سال کینیڈا میں عارضی/مختصر دورانیے پر کینیدا آنے والے 50/60ہزار افراد کا باقائدہ/ادارہ جاتی سطح پر استحصال کیا جاتا ہے۔ زراعت اور دیگر متعلقہ شعبوں میں کام کے لیے لائے جانے والے افراد کو بدترین سلوک کا سامنا رہتا ہے۔ یہ مزدور ملک بدر اور دیہاڑی چھوٹ جانے کے خوف سے اس کے خلاف آواز بھی نہیں اٹھا پاتے اور یونہی ان کا استحصال چلتا رہتا ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ سال جیمیکا سے ایک ایک گروہ نے ایسے ہی کیمپوں میں کام سے واپس لوٹنے کے بعد اپنی وزارت مزدور سے کینیڈا میں ناروا سلوک اور غلامی کی طرز پر کام کروانے کی ایک کھلے خط میں شکایت کی تھی۔ اس وقت پہلی بار عیاں ہوا تھا کہ ان مزدوروں سے زہریلے کیمیکل سپرے کروائے جاتے ہیں، اور انہیں بنیادی ضروری حفاظتی آلات بھی فراہم نہیں کیے جاتے۔ سستانے کے لیے بھی بیٹھنے پر مالک مارتے اور گالیاں دیتے جبکہ شکایت لگانے پر فوری ملک بدر کرنے کی دھمکیاں بھی دیتے تھے۔
ایسی ہی ایک رپورٹ جو کہ 2014 میں شائع ہوئی تھی میں انکشاف ہوا تھا کہ متذکرہ سال میں 787 مزدوروں کو کام کے دوران زخمی ہونے پر علاج معالجے کے بغیر آبائی واپس بھیج دیا گیا تھا۔
حالیہ رپورٹ میں اقوام متحدہ نے ان مزدوروں کو مستقل شہریت دینے، برابری کی بنیاد پر تنخواہ اور سہولیات دینے، ان کی مہارت کی قدر کرنے اور تمام انسانی حقوق کو یقینی بنانے کی تجویز دی گئی ہے۔