ایک تازہ سروے میں سامنے آیا ہے کہ امریکہ کی معروف جامعہ، ہارورڈ یونیورسٹی آزادی رائے کے حوالے سے امریکہ کی بدترین یونیورسٹی ہے۔ فاؤنڈیشن فار انڈیویژوئل رائٹس اینڈ ایکسپریشن کی سروے تحقیق میں امریکہ کی معروف جامعہ کو بدترین مقام یعنی نچلا درجہ ملا ہے۔
سروے کے محقق نے رپورٹ میں لکھا ہے کہ ہارورڈ نے کزشتہ کچھ عرصے میں بہت سے پروفیسروں کو ان کی رائے کی وجہ سے نکالنے کی دھمکی دی، 9 میں سے 7 کو نکالا اور ان کو دیگر جامعات میں بھی جگہ نہ ملنے کے حوالے سے سفارشات کیں، ایسے حالات میں ہارورڈ کے لیے منفی نمبر کوئی تعجب کی بات نہیں تھی۔
انہوں نے میڈیا سے گفتگو میں مزید کہا کہ اس سے قبل بھی ہارورڈ آزادی رائے کے حوالے سے بہت اچھے مقام پر نہیں رہی، تاہم کچھ گزشتہ واقعات کے بعد اور ہمارے سروے نتائج نے لوگوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کی ہے۔
سروے میں امریکہ کی 248 جامعات سے معلومات اکٹھی کی گئیں جس میں مشی گن جامعہ اول جبکہ ہارورڈ آخری نمبر پر کھڑی پائی گئی۔
تحقیقی ادارے کے سربراہ نے تدریسی ماحول کو آزاد اور مختلف نظریات کے حوالے سے زرخیر ہونے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اس کے بغیر ہم ایک مظبوط مستقبل کی یقین دہانی نہیں کروا سکتے۔ یہ ادارے ہماری آئندہ نسلوں اور مستقبل کے قلعے ہیں، تاہم حالیہ کچھ عرصے میں سامنے آیا ہے کہ ان کا ماحول انتہائی گھٹن والا ہے۔
سروے کے معیارات میں رائے رکھنے اور اسے پھیلانے کی آزادی، رائے کے اظہار پر ممکنہ ردعمل، خصوصاً انتظامی ردعمل، بیٹھک کرنے، اکٹھ بنانے کی آزادی یا اسے بند کرنا شامل تھے۔ اس کے علاوہ سروے میں شامل 248 جامعات کے 55 ہزار طلباء سے بھی رائے لی گئی جن میں سے 56 فیصد نے کچھ مخصوص حوالوں پر رائے دہی کرنے پر جامعہ سے نکالے جانے کے خوف کا اظہار کیا۔ طلباء کے مطابق وہ اسقاط حمل، اسلحے کی پابندی، نسلی تفریق، اور ٹرانس جینڈر جیسے موضوعات کے خلاف کھل کر اظہار رائے نہیں کر سکتے۔
سروے انتظامیہ کے مطابق یہ اسی ماحول کا نتیجہ ہے کہ امریکی جامعات کے 27 فیصد طلباء کو لگتا ہے کہ انتظامیہ کو یہ حق حاصل ہونا چاہیے کہ وہ کسی رائے پر طلباء پر سختی کر سکیں۔