ایشیا اور یورپ کو تقسیم کرنے والے پہاڑی سلسلے کوہ قاف کے اہم ملک داغستان میں کورونا وائرس نے تباہی مچا دی ہے۔ روس کے زیر تسلط مسلم اکثریتی ریاست داغستان میں ہلاکتوں کی تعداد 800 سے بھی زیادہ ہو چکی ہے، جوتناسب کے لحاظ سے کسی بھی علاقے میں سب سے زیادہ ہے۔ روس کووڈ19 سے متاثرہ ممالک میں دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے، جہاں اب تک مجموعی طور پر 3000 کے لگ بگھ ہلاکتیں ہو چکی ہیں، جن میں سے تقرہباً ایک تہائی داغستان میں ہوئی ہیں۔
ابتدائی اندازوں کے مطابق علاقے کے شدید متاثر ہونے کی بڑی وجہ مقامی افراد کا زیادہ تر شعبہ ترسیل سے وابستہ ہونا ہے۔ داغستانی مردوں کا عمومی پیشہ ڈرائیوری ہے اور وہ ایران، روس اور وسط ایشیائی ریاستوں میں سامان کی ترسیل کا کام کرتے ہیں۔
معروف عالمی یو ایف سی چیمپین حبیب نور محمدوو کا تعلق بھی داغستان سے ہے اور ان کے والد سمیت خاندان کے 20 سے زائد افراد وائرس سے متاثر ہوچکے ہیں، حبیب کے والد ماسکو کے ایک اسپتال میں کومہ کی حالت میں ہیں۔ انسٹاگرام ویڈیو میں حبیب نے ریاست میں شدید سنجیدہ صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اپنے چاہنے والوں سے دعا کی اپیل کی ہے۔
دوسری طرف روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے صورتحال کا ذمہ دار مقامی آبادی کو ٹھہرانے کی بھونڈ کوشش کی ہے۔ جس پر عوام میں غم و غصہ نظر آرہا ہے۔ مقامی شعبہ صحت کے ذمہ داران کا کہنا ہے کہ ریاست میں یومیہ صرف ایک ہزار لوگوں کا ٹیسٹ کیا جا رہا ہے۔ جس کی وجہ آلات اور لیبارٹری کی سہولیات کی کمی ہے۔ اور اسپتالوں میں صرف شدید علیل لوگوں کا علاج کیا جا رہا ہے، اور اس کے علاوہ کسی کا ٹیسٹ بھی نہیں کیا جا رہا۔
شعبہ صحت کے ذمہ داران کا مزید کہنا ہے کہ ماسکو حکومت کے غیر ذمہ دارانہ رویے کے علاوہ لوگوں کے عدم اعتماد کی بڑی وجہ ماسکو سے آنے والے متضاد پیغامات بھی ہیں، جن میں حکومت پہلے قومی ٹی وی پر شہریوں کو کہتی رہی کہ کورونا وائرس کھانسی زکام سے زیادہ برا نہیں ہے، جس کی وجہ سے لوگوں نے سماجی دوری کی ہدایت پر زیادہ توجہ نہ دی۔ تاہم صورتحال بگڑنے پر مقامی جوانوں نے رضاکارانہ طور پر شہریوں کی حفاظت اور خدمت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ جو تحریک کی شکل اختیار کر چکی ہے اور مقامی لوگ انہیں حقیقی ہیرو قرار دے رہے ہیں۔
مختلف عالمی اداروں کی رپورٹوں کے مطابق جب اپریل کے مہینے میں کووڈ 19 کے مریضوں کی بڑی تعداد اسپتال پہنچنا شروع ہوئی تو پچاس فیصد سے زائد عملہ خود ضروری حفاظتی لباس نہ ہونے کی وجہ سے بیمار ہو گیا۔
صورتحال سنجدہ ہونے پر مقامی لوگوں نے حکومتی امداد کا انتظار نہیں کیا اور اپنی مدد آپ کے تحت اسپتالوں کو چلانا شروع کردیا۔ اسپتالوں میں آکسیجن کی کمی ہوئی تو رضاکار اپنی مدد آپ کے تحت نجی خرچ پر 120 میل دور دارلحکومت ماحاچ قلعہ سے آکسیجن کے سلنڈر بھروا کر لائے۔ جوانوں نے نہ صرف اسپتالوں میں طبی عملے کی مدد کی بلکہ وائرس کے مزید پھیلاؤ کی روک تھام کے لیے گاؤں کے داخلی راستے پہ پہرہ بھی دیا، اور ہر آںے جانے والی کی تشخیص کو ممکن بنایا۔ ایک عالمی نشریاتی ادارے سے گفتگو میں ایک مقامی رہائشی مگومد خبیب نے بتایا کہ رضاکار بسا اوقات دن میں تین تین بار ماحاچ قلعہ جا کر آکسیجن کے سلنڈر لا رہے ہیں۔ اور اب ترکی سے بھی امداد آنا شروع ہو گئی ہے۔