ایران میں پسند کی شادی کے لیے گھر سے بھاگنے پر باپ نے 14 سالہ بیٹی کو گلا کاٹ کر قتل کر دیا۔ ایرانی خبر ایجنسیوں کے مطابق قتل کے جرم میں پولیس نے ملزم کو گرفتار کر لیا ہے اور اس نے جرم کا اعتراف بھی کیا ہے۔
ایرانی ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی خبروں کے مطابق 14 سالہ رومینا اشرفی کی 35 سالہ لڑکے سے دوستی تھی اور وہ شادی کرنا چاہتے تھے، تاہم گھر والے اس پر راضی نہ تھے جس پر لڑکی دوست کے ساتھ گھر سے بھاگ گئی۔
گھر والوں کی شکایت پر پولیس نے دونوں کو تلاش کر کے اپنے اپنے گھروں میں واپس بھیج دیا۔ تاہم موقع پاتے ہی باپ نے سوتے ہوئے جوان بیٹی کو قتل کر دیا۔ واقعے پر ایران بھر سے شدید رد عمل سامنے آ رہا ہے۔ اور سماجی میڈیا پر بھی رومینا اشرفی کے نام سے بحث جاری ہے۔
واقع کو مغربی میڈیا میں اسلامی روایات سے جوڑ کر جہاں بغض اسلام کا اظہار کیا جا رہا ہے وہاں استشراقیت بھی پھیلائی جا رہی ہے۔
بی بی سی اردو نے اپنے روائیتی اسلام اور مشرق دشمنی بیانیے سے کام لیتے ہوئے ایران میں بیٹیوں کے قتل کی جہالت پر مبنی واقعات کو اسلامی قانون سے جوڑا ہے۔ خبر میں بی بی سی نے لکھا ہے کہ “ایران میں اسلامی قانون کے تحت غیرت کے نام پر بچوں کا قتل یا ان پر تشدد کرنے والا شخص اگر باپ یا گھر کا کوئی فرد ہو تو اس کے خلاف کارروائی میں نرمی برتی جاتی ہے”۔ جبکہ ان واقعات کا یا ان کے خلاف قوانین کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
جہالت کے ایسے واقعات مغربی ممالک میں ہونے پر انہیں کسی تہذیب کے ساتھ نہیں جوڑا جاتا، تاہم اسلامی ممالک میں انہیں اسلام دشمنی کے لیے بھرپور استعمال کیا جاتا ہے، جو اس مسئلے کے حل میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔