خانہ جنگی کے شکار افریقی ملک لیبیا میں ترکی کی مداخلت نے بالآخر ملک میں سیاسی صورتحال بدل ڈالی ہے۔ ترکی نے جنوری 2020 میں کھل کر لیبیا کی عالمی تسلیم یافتہ حکومت کی عسکری مدد کا اعلان کیا تھا جس میں فوج کے علاوہ ڈرون طیارے بھی فراہم کیے گئے تھے۔ لیبیا کے وزیر اعظم فائز السراج کو ملنے والی اس کمک نے بالآخر خلیفہ حفتر کے جنگجوؤں سے ملک کے اہم تذویراتی شہرترہونا کا انتظام واپس لے لیا ہے۔ ترہونا دارالحکومت ترابلس سے صرف 80 کلومیٹر کی مسافت پر ہے اور شہر خلیفہ حفتر کا سیاسی وعسکری مرکز رہا ہے۔ یہاں ہی حفتر کے اتحادی جن میں مصر اور روس نمایاں ہیں، اسے امداد بھی فراہم کرتے تھے۔
حفتر کی جانب سے ترہونا کا انتظام کھونے کے بعد دونوں گروہوں کی طرف سے ردعمل سامنے آیا ہے۔ جس میں حفتر نے اپنے اتحادی، مصر کے صدر الفتاح السیسی کے ساتھ ملاقات کے بعد ذرائع ابلاغ سے گفتگو میں کہا ہے کہ اقوام متحدہ دونوں فریقین میں بات چیت کا ڈول ڈالے۔
جبکہ فائز السراج نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر نئی حکمت عملی وضح کرتےہوئے امن کے لیے بات چیت کا پرانا مطالبہ نہیں دہرایا۔ انہوں نے ترک صدر طیب ایردوان سے ملاقات کے بعد آئندہ کی تدبیرعیاں کرتے ہوئے کہا کہ حفتر تمہارے دن گنے جا چکے، تم ہار چکے ہو، عدالت کا سامنا کرنے کو تیار ہو جاؤ، اس موقع پرترک صدر نے بھی فائز السراج کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ غیر جمہوری قوتوں کے ساتھ بات چیت نہیں ہو سکتی، روس اور مصر بھی لیبیا میں غیر جمہوری قوتوں کی مدد کرنا بند کر دیں۔
دونوں فریقین کی مختلف رائے سے اب تک تو امن کے لیے بات چیت کا آغاز نظر نہیں آرہا، جس کی وجہ فائز السراج کی ترہونا میں نئی فتح ہے تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ ترہونا سے حفتر کے جنگجوؤں کو دھکیلنا ایک اہم پیش رفت ضرور ہے لیکن حفتر اب بھی مشرق میں ایک اہم طاقت ہے، اس کے پاس فوج ہے، اور لیبیا کے بڑے تیل کے ذخائر بھی اس کے علاقوں میں ہیں۔ البتہ آئندہ کچھ ہفتے لیبیا کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کرنے میں اہم ہوں گے، اور اس کا انحصار اتحادیوں کی امداد اور طاقت پرہو گا۔