لندن کے ناظم صادق خان بھی نسل پرستی کے تعصب کے خلاف مظاہروں سے پریشان، برطانوی تاریخی کرداروں کے مجسموں کی توہین پر کہتے ہیں انہیں ہٹانے کا مجاز تو نہیں تاہم نئی یادگاریں بنوا سکتا ہوں۔ مقامی ذرائع ابلاغ سے گفتگو میں ناظم لندن کا کہنا تھا کہ شہر میں موجود ایسی سڑکوں کے نام اور ان شخصیات کے مجسموں کو ہٹا دینا چاہیے جو غلاموں کا کاروبار کرنے کی تاریخ سے منسلک رہے تاہم وہ ان کے مالک نہیں کہ ایسا کر سکیں۔

صادق خان نے مزید کہا کہ وہ ایک کمیشن تشکیل دے رہے ہیں جو برطانوی دارالحکومت کی اہم علامتوں اور مقامات کا جائزہ لے کر شہری حکومت کو تجاویز پیش کرے گا کہ شہر میں کونسے مقامات، دیواروں ، گلیوں، یادگاروں اور مجسموں کو میراث کے طور پر قائم رکھا جائے اور کسے ہٹا دیا جائے۔ انکا کہنا تھا کہ اس عمل سے شہر میں آئندہ کیلئے تنوع کو یقینی بنایا جا سکے گا۔

صادق خان کا اقدام اس وقت سامنے آیا ہے جب امریکہ سمیت تقریباً تمام مغربی ممالک میں سیاہ فام افریقیوں کے ساتھ نسلی تعصب پر شدید احتجاجی مظاہرے جاری ہیں۔ اور برطانیہ میں بھی اتوار کو برسٹل کے علاقے میں نسل پرستی کی مخالفت کرنے والے مظاہرین نے غلاموں کے معروف تاجر ایڈورڈ کولسٹن کے مجسمے کو گِرا کر اپنے جذبات کا اظہار کیا۔ مظاہرین نے پارلیمنٹ سکوائر میں ونسٹن چرچل کے مجسمے پر بھی سپرے سے نسل پرست لکھا اور اپنے جذبات کا اظہار کیا۔
تاہم صادق خان نے دوسری جنگ عظیم کے دوران برطانوی وزیراعظم ونسٹن چرچل کے مجسمے کو اس کمیشن کے دائرے میں شامل نہیں کیا، جو برصغیر، فلسطین،، جنوبی افریقہ سمیت دنیا بھر میں برطانوی ظلم و جبر کے ذمہ دار رہے ہیں۔
صادق خان نے لندن میں نئی یادگاروں کی تعمیر کا وعدہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ اسٹیفن لارنس ، ونڈرش نسل، امریکہ کی طرز پر غلامی کی تاریخ پر قومی عجائب گھر اور سکھ فوجیوں کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ایک قومی جنگی یادگار تعمیر کریں گے۔