معروف سماجی میڈیا ویب سائٹ ٹویٹر خاص مغربی طبقے کے مفادات کے تحفظ کے لیے کھل کر سامنے آگیا ہے۔ مختلف عالمی ذرائع ابلاغ کی خبروں کے مطابق گذشتہ چند ہفتوں میں ٹویٹر نے بیشتر مشرقی ممالک سے تعلق رکھنے والے تقریباً دو لاکھ کھاتے بند کیے ہیں۔ ان ممالک میں چین سر فہرست، جبکہ سعودی عرب، ترکی، مصر، سائیبیریا، اور روس بھی شامل ہیں۔
معاملے پر متاثرہ ممالک کے سماجی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ایک جانب سوشل میڈیا جمہوریت اور آزادی اظہار کا پرچار کرتا ہے جبکہ دوسری طرف انکی جانب سے صارفین کی نجی معلومات کو بیچنے سے لے کر ان کی آواز بندی کی کارروائیوں میں بھی روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔
چند ہفتے قبل ٹویٹر کی جانب سے امریکی صدر کی ٹویٹ پر تنبیہی نشان چسپاں کرنے پر صدر ٹرمپ نے شدید غصے کا اظہار کیا اور سماجی میڈیا کے حوالے سے نئی قانون سازی بھی کی تاہم ٹویٹر نےاب وہی عمل چینی دفتر خارجہ کے ایک ترجمان سے منسلک ایک ٹویٹ پر بھی کر دیا ہے۔
کھاتوں کی بندش پر ٹویٹر نے اپنے وضاحتی بیان میں کہا ہے کہ تمام متاثرہ کھاتے ویب سائٹ کی پالیسی کی خلاف ورزیوں میں مصروف تھے، اور عوامی مکالمے کو روکنے کی کوششوں میں ملوث پائے گئے تھے۔
یورپی یونین کی جانب سے بھی ایک رپورٹ شائع کی گئی ہے جو ٹویٹر کے الزامات سے مماثلت رکھتی ہے، یورپی یونین کا کہنا ہے کہ ماضی کے برعکس یورپی عوامی مفادات کے برخلاف پراپیگنڈے میں روس کے ساتھ چین بھی ملوث نظر آرہا ہے۔ رپورٹ میں ثبوت کے طور پر بیان کیا گیا ہے کہ چینی سفارت کاروں کے ٹویٹر کھاتوں میں یومیہ سینکڑوں کا اضافہ ہو رہا ہے۔ جبکہ دوسری طرف چینی سفارتکار ان کھاتوں کو ہانگ کانگ سے متعلق گمراہی کے لیے بھی استعمال کر رہے ہیں۔
ٹویٹر کی جانب سے مزید وضاحت میں کہا گیا ہے کہ بندش کا شکار کھاتوں میں سے چین کے تقریباً 25 ہزار انتہائی متحرک جبکہ ڈیڑھ لاکھ کے قریب انکی حمایت اور مواد کو ابھارنے والے کھاتے شامل تھے۔ ٹویٹر نے مزید الزام لگایا ہے کہ یہ کھاتے کورونا سے متعلق سازشی نظریات بھی پھیلا رہے تھے۔
چین نے الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ چین بذات خود ہانگ کانگ اور کورونا سے متعلق مغربی پراپیگنڈے کا سب سے بڑا شکار ہے۔
سیاسی و سماجی ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹویٹر کی جانب سے سامنے آںے والے ان تمام اقدامات کا مقصد امریکہ اور یورپ کی خاص لبرل اشرافیہ سے سیاسی اختلاف رکھنے والوں خصوصاً اگلے انتخابات میں صدر ٹرمپ کو سیاسی نقصان پہنچانا لگتا ہے۔ جبکہ بعید النظر میں اس عمل سے ان طاقتوں کی عالمی اجارہ داری کے بیانیے کو درپیش بڑھتے خطرے کو لگام لگانے میں مدد ملے گی۔
مصر اور سعودی عرب، ترکی اور دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے صارفین کے بند کردہ کھاتوں پر بھی ملتے جلتے الزامات عائد کیے گئے ہیں، جن میں سر فہرست عوامی مباحثوں کو روکنا اور حکومتی مؤقف کو تقویت دینے کے لیے پراپیگنڈے کی کوشش شامل ہے۔