امریکی وزیر دفاع مارک ایسپر کا کہنا ہے کہ امریکہ پورے ایشیا میں اپنی فورسز کو منظم کر رہا ہے اور ان کی از سر نو تعیناتی عمل میں لا رہا ہے تا کہ چین کے ساتھ ممکنہ مقابلے کے لیے تیار ہوا جا سکے۔ جبکہ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے چین کے ہاتھوں مرنے والے کرنل سمیت 20 بھارتی فوجیوں پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت ہمارا اہم پارٹنر ہے، لداخ پر پیپلز لبریشن آرمی کی طرف سے لڑائی والے اقدام ناقابل قبول ہیں۔ انڈو پیسفک میں ہندوستان ہمارا اہم اتحادی ہے۔
دوسری طرف چین کے ساتھ کشیدگی کے درمیان امریکہ کے ساتھ بھارتی بحریہ کی فوجی مشقیں جزیرہ انڈمان اور نکوبار کے قریب شروع ہو گئی ہیں جہاں بھارتی بحریہ کا مشرقی بیڑہ پہلے سے ہی موجود ہے۔بھارتی بحریہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ یہ مشق دراصل پیسیج ایکسرسائز کا ایک حصہ تھی جو وقتاً فوقتاً ایک بحریہ دوسرے ممالک کی بحریہ کے ساتھ کرتی رہتی ہے۔

ترجمان کا کہنا ہے کہ امریکی جنگی جہازوں کا بیڑا یو ایس ایس نیمتز بحر ہند سے گزر رہا تھا اور اس دوران دونوں ممالک کی بحریہ نے مل کر یہ مشق کی۔ ماضی میں بھی بھارتی بحریہ جاپان اور فرانس کی بحریہ کے ساتھ ایسی ہی مشقیں کر چکی ہے اور رواں سال کے آخر میں انڈین بحریہ آسٹریلوی، امریکی اور جاپانی بحریہ کے ساتھ خلیج بنگال میں بھی مشقیں کرے گی۔
امریکی خبر رساں ادارے وال سٹریٹ جرنل کے مطابق وزیر دفاع مارک ایسپر کی جانب سے خطرناک بیان سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے بیجنگ کے حوالے سے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کے سخت گیر موقف کا تعین کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ پورے ایشیا میں اپنی فورسز کی از سر نو ترتیب اور تنظیم کر رہا ہے تا کہ چین کے ساتھ ممکنہ مقابلے کے لیے تیار ہوا جا سکے۔ایسپر کے مطابق امریکہ خطے میں بحری جہازوں کے بھیجنے کا سلسلہ جاری رکھے گا تا کہ چین کی توسیعی پالیسی اور تائیوان کو ہتھیاروں کی فروخت کے معاملے سے نمٹا جا سکے۔تاہم ہم چین کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہیں اور رواں سال کے اختتام تک میں چین کے دورے کا ارادہ بھی رکھتا ہوں۔
مارک ایسپر نےمزید کہا کہ چین نے سمندری تیل اور گیس کی تقریبا 26 کھرب ڈالر مالیت کی ممکنہ آمدنی کی مد میں علاقائی حلیفوں اور شراکت داروں کو ڈرایا۔ امریکہ ہر صورت میں تائیوان کو اسلحہ فروخت کرے گا۔ ٹرمپ انتظامیہ پہلے ہی تائیوان کو تقریبا 10 ارب ڈالر مالیت کا اسلحہ فروخت کرنے کی منظوری دے چکی ہے۔ ان میں رواں سال مئی میں 18 کروڑ ڈالر کی ایک کھیپ بھی شامل ہے۔
واضح رہے کہ اس اقدام سے کشیدگی میں اضافہ ہو گا اس لیے کہ چین اس نوعیت کی فروخت کو اپنی خود مختاری کی خلاف ورزی شمار کرتا ہے اور وہ امریکہ کسی قسم کی کھلی چھٹی نہیں دے گا ۔