جنوبی ایشیا میں مودی کے ہندوستان کا تنہائی کی طرف سفر تیزی سے جاری ہے۔ خطے کے دیگر ممالک کے بعد بنگلہ دیش کی سرد مہری پر مودی سرکار سخت پریشان ہے اور تازہ اطلاعات کے مطابق وزیر اعظم حسینہ واجد سے ہندوستانی سفیر کی ملاقات کے لیے دی جانے والی درجنوں درخواستیں مسترد کی جا چکی ہیں۔
معروف بنگلہ دیشی اخبار بوریر کاغوج میں چھپنے والی تحریر کے مطابق 2019 میں دوبارہ منتخب ہونے کے بعد حسینہ واجد نے بنگلہ دیش میں ہندوستان کے متعدد منصوبوں کو روک رکھا ہے جبکہ پاکستان اور چین کے ساتھ تجارتی اور سرمایہ کاری کے منصوبوں پر تیزی سے کام ہو رہا ہے۔ اخبار کے مطابق صورتحال پر ہندوستان کی پریشانی دیدنی ہے، جسے سنبھالنے کے لیے ڈھاکہ میں ہندوستانی سفیر نے پچھلے چار ماہ میں حسینہ واجد سے ملنے کے لیے درجنوں درخواستیں دی ہیں تاہم انہیں وزیراعظم کے دفتر سے منظوری نہیں ملی۔
بنگالی اخبار لکھتا ہے کہ مودی سرکار کو لاحق پریشانیوں میں اضافہ کرنے والی ایک اور خبر بنگلہ دیش کا سلہٹ کے ہوائی اڈے کی توسیع کا اہم تذویراتی منصوبہ چینی کمپنی کو دینا بھی ہے، جو شورش زدہ علاقوں کی ہندوستانی سرحد کے قریب ہونے کی وجہ سے مودی سرکار کے لیے درد سر بنا ہوا ہے۔
اخبار بوریر کاغوج کے مطابق ماضی میں اچھے تعلقات کے باوجود حسینہ واجد کی سرد مہری کا عالم یہ ہے کہ کورونا وباء کے دوران ہندوستانی امداد کا شکریہ تک ادا نہیں کیا گیا اور حکومت مسلسل پاکستان اور چین کی طرف جھکتی چلی جا رہی ہے۔
بوریر کاغوج نے مزید لکھا ہے کہ بنگلہ دیشی وزیر اعظم کے دفتر میں چینی لابی بہت مظبوط ہو چکی ہے، جو چین کے ساتھ تعلقات کو اہمیت دینے کے ساتھ ساتھ چین کے خطے میں دیرینہ اتحادی پاکستان کے لیے بھی سود مند ثابت ہو رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بنگلہ دیش نے 15 سال بعد پاکستان سے زرعی مصنوعات کی درآمد بھی شروع کر دی ہے، اور اس سلسلے میں نومبر 2019 میں پیاز کی بڑی مقدار پاکستان سے درآمد کی گئی، جس پر ہندوستان نے اچانک پابندی عائد کر دی تھی۔
اخبار مزید لکھتا ہے کہ بنگلہ دیش اور پاکستان کے مابین سفارتی تعلقات، حسینہ واجد کی طرف سے جماعت اسلامی بنگلہ دیش کو سیاسی انتقام کا نشانہ بناتے ہوئے اعلیٰ قیادت کو پھانسیاں دینے کے وقت سے بالکل منقطع تھے، کیونکہ پاکستان نے اس پر شدید احتجاج کیا تھا، جسے بنگلہ دیش نے ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دیتے ہوئے پاکستان کے کسی سفیر کو بھی ملک میں قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا، پر اچانک دس ماہ قبل معاملات معمول پر آنا شروع ہو گئے، جس میں بلا شبہ چین کا ملوث ہونا یقینی ہے۔
بنگلہ دیشی اخبار کے مطابق حسینہ واجد کی ہندوستان سے سرد مہری کی وجہ مودی سرکار کی جانب سے مسلم کش پالیسیوں کا تسلسل بھی ہے، جس میں امتیازی شہریت کا قانون سر فہرست ہے۔ قانون سے سب سے زیادہ ہندوستان میں مقیم بنگالی مسلمان اور بنگلہ دیش متاثر ہو گا۔ جبکہ گزشتہ کچھ ماہ میں سرحد پر ہندوستانی فوجیوں کی جانب سے بنگلہ دیشیوں پر گولیاں چلانے اور عام عوام کی اموات میں اضافہ بھی شامل ہے، جو مقامی سیاست میں حسینہ واجد کے لیے مسائل کھڑے کر رہا ہے۔
ایسے حالات میں بنگلہ دیش کا پاکستان کی طرف آنا ایک قدرتی امر تھا تاہم چین بھی اس میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ اس سال کے آغاز پر بنگلہ دیش نے پاکستان کے سفیر، عمران احمد صدیقی کے سفارتی دستاویزات کو قبول کیا اور تعلقات ایک لمبے عرصے بعد معمول پر لوٹنا شروع ہوئے، جس سے پاکستان نے بھی بھرپور فائدہ اٹھایا۔
بنگلہ دیش ہندوستان تعلقات پر ہندوستانی اخبار دی ہندو میں بھی ایک تجزیہ شائع کیا گیا ہے، جس میں تمام معاملات کی سنجیدگی کو بھانپتے ہوئے مودی سرکار کو ہوش کے ناخن لینے کی تلقین کی گئی ہے۔ دی ہندو نے حسینہ واجد کے وزیر اعظم عمران خان سے ٹیلیفون پر رابطے اور گفتگو کو بھی زیر بحث لایا ہے اور اسے پاکستان کی بڑی کامیابی گردانا ہے۔ تاہم دی ہندو نے مزید لکھا ہے کہ حسینہ واجد کی حکومت دراصل سرد مہری دکھا کر ہندوستان کو اپنی شرائط پر بات چیت کے لیے مجبور کرنا چاہے گی۔