عمران خان حکومت نے عالمی عدالت انصاف کا بہانہ بنا کر ہندوستانی جاسوس اور عدالت سے ثابت دہشتگرد کلبھوشن یادیو کو خصوصی وکیل دفاع دینے کی درخواست دی ہے۔ درخواست اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر کی گئی ہے جس کی سماعت 3 آگست کو عید کی چھٹیوں کے بعد ہو گی۔ حکومت نے درخواست میں عالمی عدالت انصاف کا نام لے کر بھارتی دہشت گرد کو اپنی جانب سے خصوصی وکیل دینے کی اجازت طلب کی ہے۔ کیونکہ کلبھوشن یادیو خود اسے دی گئی سزا کے خلاف درخواست نہیں دینا چاہتا۔
حکومت نے درخواست میں مؤقف اپنایا ہے کہ بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو نے سزا کے خلاف درخواست دائر کرنے سے انکار کیا ہے، کلبھوشن یادیو بھارت کی معاونت کے بغیر پاکستان میں وکیل مقرر نہیں کر سکتا جب کہ بھارت بھی آرڈیننس کے تحت سہولت حاصل کرنے سے گریزاں ہے۔ درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ عدالت کلبھوشن یادیو کے لیے قانونی نمائندہ مقرر کرے، عدالت حکم دے تاکہ عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کے مطابق پاکستان کی ذمہ داری پوری ہو۔
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ اقوام متحدہ کا رکن ہونے کے باوجود مقامی قوانین کو عالمی عدالت انصاف کے حکم کا پابند نہیں کیا جاسکتا، تاہم یہاں مسئلہ قانون کی فوقیت کا ہے ہی نہیں۔ عالمی قوانین کے معروف قانون دان شیخ اکرم کا کہنا ہے کہ عالمی عدالت میں کلبھوشن کو بھارتی درخواست پر صرف اپیل کا حق دیا گیا، جو اسے پاکستانی قانون میں بھی حاصل تھا، یعنی عالمی عدالت کے فیصلے میں کوئی نئی بات نہیں۔ تاہم یہ حق وہ خود استعمال کر سکتا ہے۔ اور اگر وہ خود ضد یا کسی بھی وجہ سے اپیل نہیں کرتا تو حکومت پاکستان عالمی عدالت میں اس انکار کو پیش کر کے مقدمے کے فیصلے کی روح کو پورا کر سکتی ہے۔
اب بظاہر یوں لگتا ہے کہ حکومت کشمیر پر خاموشی کے بعد بھارت نوازی میں اسا اقدامکرنے جا رہی ہے جس سے نہ صرف پاکستانی قانون کی سبکی ہو گی بلکہ مستقبل میں سنجیدہ مسائل بھی کھڑے ہو سکتے ہیں۔ وگرنہ واضح طور پر اپنے جرائم کا اعتراف کرنے والے ایک دہشت گرد کو بھارتی حکومت کی ایماء پر خود اس لیے وکیل دینا کہ دہشت گرد خود اپیل کی درخواست نہیں دینا چاہتا، کسی بھی صورت میں قابل دفاع عمل نہیں۔
عدالت نے حکومتی درخواست کو سماعت کے لیے مقرر کرتے ہوئے خصوصی بینچ تشکیل دیدیا ہے جس میں چیف جسٹس اطہرمن اللہ اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب شامل ہیں۔