معروف امریکی جریدے وال سٹریٹ جرنل نے ایک سنسنی خیز رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ فیس بک جانبداری کا رویہ اپناتے ہوئے ہندوستانی سیاسی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنماؤں کے خلاف کارروائی نہیں کرتی ہے۔ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ نفرت انگیز مواد کے خلاف شکایات کے باوجود معروف ویب سائٹ کی انتظامیہ ہندوستان کےمخصوص سیاستدانوں کے خلاف کارروائی سے اجتناب کرتی ہے تاکہ کمپنی کے کاروباری منافع کو یقینی بنایا جا سکے۔
رپورٹ کے مطابق کارروائی میں رکاوٹ ہندوستان میں فیس بک کی اعلیٰ ترین پالیسی ساز انکھی داس ڈالتی ہے، جو بی جے پی یعنی مودی کی جماعت سے وابستگی رکھتی ہے۔ رپورٹ میں حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ انکھی داس حکمران جماعت نے کمپنی کے تعلقات اچھے رکھنے کے لیے بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنما ٹی راجا سنگھ کی نفرت انگیز پوسٹ کے خلاف کارروائی نہیں ہونے دی۔ ٹی راجا سنگھ ریاست تلنگانہ کی اسمبلی کا رکن ہے اور وہ مسلمانوں اور دیگر مذہبی گروہوں کے خلاف اپنی نفرت انگیز تقاریر اور سماجی میڈیا پر اشتعال انگیزی کی وجہ سے مشہور ہے، جو مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیزی پھیلانے، مساجد کے انہدام اور روہنگیا افراد کے خلاف تشدد پر اکسانے کے لیے مسلسل پیغامات جاری کرتا رہتا ہے۔
رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ فیس بک پر نفرت انگیز مواد کی نگرانی کرنے والے عملے نے راجا سنگھ کی پوسٹوں میں اشتعال انگیزی کو دیکھتے ہوئے اس پر مستقل پابندی عائد کرنے کی تجویز دی تھی تاہم انکھی داس نے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرکے اس کے خلاف کارروائی نہیں ہونے دی۔ رپورٹ میں فیس بک کے حالیہ اور سابق ملازمین کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ انکھی داس نے بی جے پی سے تعلق رکھنے والے کم از کم تین دیگر ایسے افراد کے خلاف کارروائی رکوائی اور جس کا پس پردہ مقصد حکمراں جماعت کو راضی رکھنا تھا۔
امریکی جریدے نے فیس بک کے ملازمین کے حوالے سے لکھا ہے کہ سوشل میڈیا پلیٹ فورم پر مودی اور ان کی سیاسی جماعت کے لیے جانب داری پائی جاتی ہے۔

معاملے پر فیس بک کے ترجمان نے مؤقف دیتے ہوئے کہا ہے کہ انکھی داس نے بعض پالیسی امور پر سوال ضرور اٹھائے تھے تاہم ٹی راجا سنگھ پر پابندی عائد نہ ہونے کے دیگر اسباب بھی ہیں، اور اسے ’’خطرناک‘‘ فرد کے زمرے میں رکھا گیا ہے۔ اس کے علاوہ اسے تصدیق شدہ اکاؤنٹ کی سہولت بھی نہیں دی گئی تاہم اب بھی کمپنی راجا سنگھ پر پابندی عائد کرنے پر غور کررہی ہے۔
جریدے کا کہنا ہے کہ فیس بک کی اعلیٰ پالیسی ساز عہدے پر فائز انکھی داس بی جے پی کی طرف جھکاؤ رکھتی ہیں اور 2017 میں مودی کی تعریف میں ایک مضمون بھی لکھ چکی ہیں۔
واضح رہے ماضی میں بھی اسرائیل سے متعلق دوہرے معیارات اختیار کرنے کے حوالے سے فیس بک پر تنقید ہوتی رہی ہے اور گزشتہ برسوں سے صارفین کو کشمیر سے متعلق آواز اٹھانے پر فیس بک پلیٹ فورم کی جانب سے مسائل کی شکایات تواتر سے سامنے آرہی ہیں۔