متحدہ عرب امارات نے صہیونی ریاست سے باہمی تعلقات بحال کرنے کے معاہدے کے بعد سفارتی و تجارتی تعلقات کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔
متحدہ عرب امارات کے حکمران خلیفہ زید بن النہیان نے ایک حکم نامہ جاری کیا ہے جس کے تحت مقبوضہ فلسطین پر قابض صہیونی حکومت سے تجارتی اور اقتصادی معاہدے کرنے کی منظوری دے دی گئی ہے۔ امارات کے سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق خلیفہ زید بن النہیان کے حکم نامے کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کے معاہدے کے تحت باہمی تعاون کو مزید فروغ دینا ہے۔
دوسری جانب دونوں ممالک کے مابین پہلی کمرشل پرواز پیر کے روز تل ابیب سے ابو ظہبی روانہ ہو گی جس میں صہیونی و امریکی حکام بھی سفر کریں گے۔ امریکی حکام کا کہنا ہے کہ پرواز میں صدر ٹرمپ کے مشیر اور داماد جیرڈ کشنر بھی امریکی حکام کے ہمراہ امارات جائیں گے۔ واضح رہے کہ اب تک قابض انتظامیہ اور متحدہ عرب امارات کے درمیان کوئی فضائی رابطے نہیں تھے لہٰذا دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی بحالی کے بعد یہ پہلی پرواز ہوگی۔
خیال رہے کہ 2002ء میں اس وقت کے سعودی ولی عہد شہزادہ عبداللہ نے بیروت میں ایک امن منصوبہ میں پیش کیا تھا جس کے مطابق عرب ممالک اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے تیار تھے تاہم اس کے لیے شرط یہ تھی کہ صہیونی انتظامیہ اپنی سرحد 1967ء میں ہونے والی جنگ سے پہلے والی حدود تک واپس لے جائے۔
اب امارات اور قابض صہیونی انتظامیہ کے مابین قائم ہونے والے تعلق کے لیے بھی یہی شرط رکھی گئی ہے کہ صہیونی ریاست مزید فلسطینی علاقے کو اپنے اندر ضم نہیں کرے گی، اور دو طرفہ تعلقات کے لیے بھی دونوں ممالک مل کر حکمت عملی بنائیں گے۔ معاہدے کے مطابق امریکہ اور متحدہ عرب امارات، صہیونی انتظامیہ سے دیگر مسلم ممالک کے تعلقات بحال کرنے میں بھی مدد کریں گے۔
پاکستان ہمیشہ سے صہیونی ریاست کا مخالف اور واحد فلسطینی ریاست کا حامی رہا ہے، تاہم ماضی قریب میں اس پالیسی میں خاموش تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے۔ اور اب ملکی قیادت دو ریاستی مؤقف، یعنی اسرائیل اور فلسطین کو دو الگ ریاستوں کے طور پر قبول کرنے کے اشارے دے رہا ہے۔ جو پاکستانی عوام کے جذبات کی قطعاً عکاسی نہیں کرتا۔