زمین پر بڑی طاقتوں نے اپنے عسکری غلبے کے لیے اب خلا کو بھی میدان جنگ بنا دیا ہے۔ مختلف ممالک نے آج تک جتنے بھی مصنوعی سیارے خلا میں بھیجے ہیں، ان میں سے ہر پانچواں مصنوعی سیارہ عسکری مقاصد کے تحت بھیجا گیا سیارہ ہے، جن کا پہلا کام زمین پر جاسوسی کرنا ہے۔
خلاء میں بھیجے گئے عسکری مصنوعی سیاروں میں اس سال مزید دو کا اضافہ ہوا ہے، اور یہ مصنوعی سیارے امریکہ کی طرف سے زمین کے مدار میں چھوڑے گئے ہیں۔
امریکہ میں ایک ملکی ادارے کا نام نیشنل ریکنائسنس آفس یا این آر او ہے، جو خلا میں جاسوسی کے لیے مصنوعی سیارے بھیجنے کا ذمہ دار ہے۔
واشنگٹن کے رواں برس بھیجے گئے مصنوعی سیاروں میں سے ایک انتہائی جدید اور خفیہ سیارہ ہے، جس کو این آر او ایل 44 کا نام دیا گیا ہے۔ یہ سیارہ وسیع تر جاسوسی منصوبے اورائن کا حصہ ہے۔ جسے 1995ء میں شروع کیا گیا تھا، تاہم دیکھا جائے تو اورائن بھی 1960 اور 1970 کے کورونا منصوبے کا تسلسل تھا۔
این آر او ایل چوالیس نامی خفیہ فوجی سیارہ 27 اگست کو عالمی وقت کے مطابق صبح چھ بج کر سولہ منٹ پر امریکی ریاست فلوریڈا کے کیپ کنیورل کے خلائی مرکز سے بھیجا گیا۔ جبکہ دوسرا مصنوعی سیارہ اس سال کے آغاز میں بھیجا گیا تھا، جسے این آر او ایل 151 کا نام دیا گیا تھا۔
اہم بات یہ بھی ہے کہ یہ سیارے این آر او منصوبے کے کئی منصوبوں کا چھوٹا سا حصہ ہیں، اگرچہ این آر او ایل 44 خود میں ایک بڑا منصوبہ ہے۔ اطلاعات کے مطابق امریکہ رواں سال ایک اور مصنوعی سیارہ این آر او ایل 101 بھی خلا میں بھیج سکتا ہے۔
امریکہ آج تک اورائن طرز کے سات عسکری مصنوعی سیارے خلا میں بھیج چکا ہے۔ تاہم 27 آگست کو بھیجا جانے والا این آر او ایل 44 سیارہ اب تک کا سب سے بڑا عسکری سیارہ ہے۔
امریکی خلائی ادارے ناسا کے ایک اہم سابق سائنسدان ڈیوڈ بیکر، جو ماضی میں اپالو اور شٹل منصوبوں کا حصہ بھی رہے ہیں اور خلائی منصوبوں پر کئی کتابوں کے مصنف ہونے کے ساتھ ساتھ اسپیس فلائٹ نامی جریدے کے مدیر بھی رہے ہیں کا کہنا ہے کہ این آر او ایل 44 پانچ ٹن سے زیادہ وزنی عظیم مصنوعی سیارہ ہے۔ بیکر کا کہنا ہے کہ اگر سیارہ اپنے انٹینا کھول کر پوری طرح سے عمل میں آئے تو اس کا حجم 110 میٹر تک ہو جاتا ہے، یعنی تقریباً 11 منزلہ عمارت کے برابر بڑا مصنوعی سیارہ خلاء میں تیرتا پھر رہا ہے۔
این آر او 44 ہزاروں کلو میٹر کی بلندی سے زمین پر کئی طرح کے شعبوں میں تکنیکی جاسوسی کی سہولت مہیا کرے گا۔ ماہرین کے مطابق جاسوس مصنوعی سیارے عام طور پر ان مقاصد کے لیے بھی استعمال کیے جاتے ہیں کہ وہ لاکھوں کی تعداد میں موبائل فون کے ذریعے بھیجے جانے والے پیغامات پر نظر رکھتے ہیں۔ اسی طرح وہ اپنے مخصوص طریقہ کار کے تحت ڈارک نیٹ پر مجرمانہ سرگرمیوں تک کا پتہ بھی چلا سکتے ہیں۔
امریکہ کی ایک عسکری ٹیم تو محض اس کام کے لیے مختص ہے کہ وہ زمینی مدار میں موجود مصنوعی سیاروں کی سرگرمیوں پر نظر رکھے۔
خلاء میں مصنوعی سیاروں سے متعلق موجود معلومات کے مطابق امریکہ کے صرف این آر او منصوبے کے تحت بھیجے گئے مصنوعی سیاروں کی تعداد 49 سے زیادہ ہے۔ جبکہ مجموعی طور پر عسکری منصوبوں کے تحت بھیجے گئے امریکی مصنوعی سیاروں کی تعداد 154 ہو چکی ہے۔
اور اگر تمام ممالک کے عسکری مقاصد کے لیے بھیجے گئے مصنوعی سیاروں کو گنا جائے تو ان کی تعداد 339 سے 485 کے درمیان بنتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ درست ہے کہ عمومی طور پر عسکری منصوبوں کو راز میں رکھا جاتا ہے تاہم کبھی کبھی یہ راز جان بوجھ کر اس لیے منظر عام پر لائے جاتے ہیں تاکہ ان سے حریف ممالک پر عسکری برتری کا رعب ڈالا جا سکے۔ یوں بیشتر امریکی عسکری منصوبوں کی تفصیل محض اس لیے سامنے لائی جاتی ہے تاکہ چین اور دیگر حریف ممالک کو باور کروایا جا سکے کہ امریکہ خلاء میں اپنے عسکری مفادات کے تحفظ کے لیے تیار ہے۔ جبکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پینٹاگون کو اپنی ایک الگ خلائی فوج کے قیام کا حکم بھی دے چکے ہیں۔
امریکی خلائی فوج کو صدر ٹرمپ نے زمین، فضا اور سمندروں کے بعد چوتھے میدان میں جنگ کے لیے فوج قرار دیا تھا۔ صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ خلائی فوج زمین، چاند اور کائنات کے تمام خالی مقامات پر امریکی تحفظات کا دفاع کرے گی۔
ان حقائق کو دیکھا جائے تو زمین پر سائنسی حوالے سے ترقی یافتہ ممالک نے بڑی طاقتوں کے طور پر اب خلا کو بھی اپنے لیے میدان جنگ بنا لیا ہے اور وہاں بھی ایک ایسی عسکری دوڑ شروع ہو گئی ہے، جو مستقبل میں کم ہونے کے بجائے تیز تر ہی ہوتی جائے گی۔