معروف امریکی جریدے فارن پالیسی نے دعویٰ کیا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان اپنی آئینی مدت ملازمت کو پورا کرنے والے پاکستان کے پہلے وزیراعظم ہوں گے۔ جریدے نے خصوصی تحریر میں اب تک مختلف پاکستانی اور عالمی شہرت یافتہ تجزیہ کاروں کی جانب سے عمران حکومت کی ناقص انتظامی کارکردگی اور یکے بعد دیگرے سامنے آنے والے اسکینڈلوں کی بنیاد پر کی جانے والی پیش گوئیوں کے ناکام ہونے کی بنیاد پر دعویٰ کیا ہے کہ عمران خان پاکستان کے قیام کے 73 سال بعد پہلے وزیراعظم ہوں گے جو اپنی آئینی مدت کو پورا کرنے میں کامیاب ہوں گے۔
تحریر میں خصوصی طور پر معروف پاکستانی صحافی و تجزیہ کار سہیل وڑائچ کے کالم “ان اور آؤٹ” کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ماضی میں پاکستانی سیاست پر متعدد درست تجزیے کرنے والے سہیل وڑائچ نے دعویٰ کیا تھا کہ جون 2020 تک اگر عمران حکومت معاملات کو سنبھالنے میں ناکام رہی تو انکی حکومت گڑ سکتی ہے، تاہم جون آیا اور چلا بھی گیا لیکن عمران خان آج بھی وزیراعظم ہیں۔
جریدے میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ماضی میں وزرائے اعظم کے مدت کو پورا نہ کرنے کی ذمہ دار ملک کی مظبوط فوج رہی ہے جو اگر براہ راست حکومت میں نہ بھی ہو تو اہم سیاست فیصلوں میں دراندازی کرنے سے باز نہیں آتی۔
اگرچہ تحریر میں اعتراف کیا گیا ہے کہ تجزیہ کاروں کی ناقص کارکردگی کے تناظر میں کی گئی پیش گوئیاں بالکل منطقی اور تاریخی حوالوں سے درست تھیں تاہم عمران خان کو فوج کے مکمل تعاون حاصل ہونے اور حزب اختلاف کے محدود مزاحمت دکھانے کے باعث لگتا ہے کہ عمران خان تاریخ رقم کرنے میں کامیاب رہیں گے، خصوصاً جبکہ ان سے پہلے آنے والے وزرائے اعظم ان کے لیے بھرپور سبق چھوڑ کر گئے ہیں۔
جریدے نے حکومتی جماعت کی اعلیٰ قیادت کے آپسی اختلافات اور اس کے نتیجے میں سامنے آنے والی سیاسی و مالی بدعنوانیوں، خصوصاً چینی اسکینڈل اور پی آئی اے پائلٹ اسکینڈل پر کہا ہے کہ کورونا وباء نے انہیں کچھ حد تک دبا دیا تاہم ناکام معاشی پالیسیوں کے باعث قومی پیداوار کا 6 فیصد سے گر کر1 فییصد سے بھی کم پر آجانا حکومتی بساط کو لپیٹ سکتا تھا تاہم فوج کے بھرپور تعاون نے معاملات کو سنبھالے رکھا، خصوصاً جبکہ ناقص کارکردگی کی وجہ سے تحریک انصاف کے پرانے پرستار بھی ناقدین میں بدل چکے تھے۔۔ اس کے علاوہ اتحادی جماعتوں کا حکومت سے نکلنے کا دباؤ اور دیگر مسائل بھی عمران خان پر دباؤ ڈالے ہوئے ہیں تاہم حکومت کا چلے جانا مشکل لگتا ہے۔
تحریر میں حزب اختلاف خصوصاً بڑی سیاسی جماعتوں، مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی سے متعلق دعوے میں کہا گیا ہے کہ وہ کسی قسم کی سخت مزاحمت سے اس وجہ سے بھی کترا رہی ہیں کہ وہ فوجی قیادت کو غلط گھوڑا چننے کی سزا کا تاثر دینا چاہتی ہیں۔
تحریر میں مزید کہا گیا ہے کہ اگرچہ حزب اختلاف منقسم ہے تاہم اس سے بڑھ کر عمران خان کا نواز شریف کی طرح فوج کی سیاسی مداخلت پر بالکل مزاحمت نہ کرنے کا رویہ بھی حکومت کے تسلسل کی گارنٹی ہے۔ اور عمران خان اپنی ناتجربہ کاری کی کمزوری کو بھی عسکری مدد سے پورا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جبکہ بہت سے دیگر مسائل مثلاً لاپتہ افراد اور پشتون تحفظ تحریک پہ خان کی خاموشی بتاتی ہے کہ اپنی حکومت کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے عمران خان پوری طرح سمجھوتا کیے ہوئے ہیں، جبکہ ان مسائل پر اقتدار سے پہلے وہ بےباک رائے دہی کرتے رہے ہیں۔
جریدے میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ آکسفورڈ کی تعلیم، مغربی رہن سہن اور کرکٹ کی وجہ سے عالمی سطح پر عمران خان کی پہچان نے بھی ان کو تحفظ دیا ہے، اور وہ پاکستان کی مغربی دنیا میں شبیہ کو بہتر کرنے میں مدد گار ثابت ہو رہے ہیں۔ کورونا وباء کے دوران قرضوں کی ادائیگی میں توسیع کی عمران خان کی اپیل کو تمام مقروض ممالک کی طرف سے سراہا اور دوہرایا گیا، اور عالمی مالیاتی اداروں نے بھی اس پر مثبت ردعمل دیا۔
امریکہ جریدہ لکھتا ہے کہ عمران خان کے ساتھ کام میں سو مسائل سہی پر فوج کے لیے اب بھی وہ واحد محفوظ انتخاب ہیں۔ ان کا متبادل نہ تو دوسری جماعتوں میں موجود ہے اور نہ خود تحریک انصاف میں۔
جریدے نے تحریر کا احتتام کچھ یوں کیا ہے؛ پاک فوج اب تک کی صورتحال اور معاملات سے مطمئن ہے، فوج ملکی بھاگ دوڑ کو بغیر کسی رکاوٹ کے چلا رہی ہے، اور کسی قسم کی غلطی کی صورت میں ان کے پاس بوجھ بانٹنے کے لیے کندھا اور اپنی ساکھ بچانے کے لیے عمران خان کی صورت میں چہرہ موجود ہے۔