چینی خبر رساں ادارے کے مطابق ہندوستانی فوجیوں نے پیر کو جھیل پینگونگ سو کے قریب سرحد عبور کرکے چینی فوج کو اشتعال انگیزی کا مظاہرہ کیا، جس پر چینی فوج ضروری کاروائی کرنے پر مجبور ہو گئی۔ پیپلز لبریشن آرمی کی علاقائی کمان نے ہندوستانی فوج پر چین کی علاقائی خودمختاری کی خلاف ورزی کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ چینی فوج محض ضروری جوابی کارروائی کررہی ہے۔ دونوں طرف کے فوجی کمانڈروں نے پیر کو تناؤ کم کرنے کے لیے بات چیت بھی کی تاہم تاحال علاقے میں حالات کشیدہ ہیں۔
واضح رہے کہ بھارت اور چین کے مابین 1962 میں سرحدی جنگ لڑی جاچکی ہے اور اس کے بعد سے اب تک دونوں ملکوں کے درمیان مسلسل جھڑپیں جاری ہیں۔ چینی وزارت خارجہ نے کہا کہ اس کے فوجیوں نے لائن آف ایکچوئل کنٹرول کے نام سے جانی جانے والی غیر سرکاری سرحد کا ‘ہمیشہ سختی سے احترام’ کیا ہے۔
اس سے قبل 15 جون کو بھارت اور چین کی فوج کے مابین لداخ کی وادی گلوان میں ہونے والی ایک جھڑپ میں 20 ہندوستانی فوجی ہلاک ہوگئے تھے۔
اس جھڑپ کے بعد ذرائع کے حوالے سے یہ رپورٹس سامنے آئی تھیں کہ چینی فوج نے بھارتی فوج کی 16 بہار رجمنٹ کے اہلکاروں پر حملہ آور ہونے کے لیے روائیتی ہتھیاروں کی بجائے لوہے کی سلاخوں اور خاردار تار سے لپٹی لاٹھیوں کا استعمال کیا تھا، حملے میں چینی فوجیوں کا رویہ اس قدر جارحانہ تھا کہ بعض بھارتی فوجیوں نے ان کے غیظ و غضب سے بچنے کے لیے دریائے گلوان میں چھلانگ لگا کر جانیں گنوائیں۔
سرحدی جھڑپوں کے بعد دونوں ممالک نے خطے میں کئی ہزار مزید فوجی تعینات کردیے ہیں جبکہ فوجی اور سفارتی مذاکرات بھی بظاہر تعطل کا شکار ہیں۔
دوسری جانب ہندوستان میں چینی مصنوعات کے بائیکاٹ کے مطالبوں کے ساتھ ساتھ ہندوستان نے جون میں ہونے والی جھڑپوں کے بعد چین پر معاشی دباؤ بڑھا رکھا ہے اور متعدد بار تنبیہ کرچکا ہے کہ اگر چین نے فوجیوں کو واپس نہیں بلایا تو دونوں ممالک کے درمیان تعلقات پر اثر پڑے گا۔ مودی سرکار نے عوام میں شردمندگی سے بچنے کے لیے ٹک ٹاک سمیت 49 چینی ایپلیکیشنوں پر بھی پابندی عائد کر رکھی ہے، جبکہ چینی کمپنیوں سے کنٹریکٹ معطل اور کسٹمز بندرگاہوں پر مصنوعات کو بھی روک کر رکھا ہے۔
تاہم چین نے ان اقدامات کے حوالے سے خبرادر کیا ہے کہ ان سے بھارتی صارفین کا ہی نقصان ہے، چین کسی قسم کے دباؤ میں نہیں آئے گا۔