اے وسیم خٹک – مہمان تحریر –
آپ جب بھی کسی یونیورسٹی میں ملازمت کے لیے انٹرویو دینے آتے ہیں تو اکثر یہ سوال کیا جاتا ہے کہ کیا آپ کے تحقیقی مقالے ہیں، اگر ہاں میں جواب دیا جاتا ہے تو پھر ایک دوسری جانب سے سوال اچھال دیا جاتا ہے کہ کیا وہ کسی اچھے ایمپیکٹ فیکٹر والے جرنل میں چھپے ہیں یا ہائر ایجوکیشن کمیشن سے تصدیق شدہ ہیں؟
اگر آپ کا جواب نفی میں آیا تو آپ کو مشکوک نظروں سے دیکھا جائے گا اور آپ کو محسوس ہو گا کہ جیسے آپ دنیا کے نالائق ترین انسان ہیں۔ آپ سر جھکائے ہوئے کسی شکست خوردہ سپاہی کی طرح انٹرویو کے کمرے سے باہر نکلیں گے۔
موجودہ دور میں قابلیت کا معیار اچھا پڑھانا نہیں بلکہ زیادہ تحقیقی مقالے ہیں، جن کی دوڑ میں پاکستان کے تمام پروفیسر لگے ہوئے ہیں۔ وہ اب پڑھانے پر اتنی توجہ نہیں دیتے بلکہ ہر وقت تحقیقی مقالے لکھنے اور اسے چھپوانے میں مصروف عمل ہوتے ہیں۔ پھر بھی جو تحقیقی مقالے چھپ رہے ہیں ان سے کوئی فائدہ نہیں اُٹھایا جاتا اور وہ مقالے صرف جرنلز میں ہی مقید ہوجاتے ہیں اور جو تھیسز کیے جاتے ہیں وہ سال دو سال کے بعد کسی کوڑے دان کی زینت بن جاتے ہیں۔
تحقیقی مقالوں کی کثیر تعداد میں چھپنے کے باوجود ملک بھر کی یونیورسٹیوں میں تدریسی نظام میں ایک بے یقینی اور زوال کا عالم طاری ہے۔ سائنسی مضامین میں بہت زیادہ ریسرچ ہو رہی ہے مگر پھر بھی وہ نتائج سامنے نہیں آ رہے جن کی حکومت کو تلاش ہے۔ سوشل سائنس کے مضامین کا تو بہت ہی برا حال ہے کیونکہ سوشل سائنسز کے جرنلز کی تعداد بہت کم ہے اور ایک تحقیقی مقالہ چھپنے میں سالوں لگ جاتے ہیں۔
دنیا بھر میں جو بھی تحقیقی مقالے چھپتے ہیں ان کا فیلڈ میں استعمال کر دیا جاتا ہے۔ پاکستانی طالب علموں کی ریسرچ کو چین میں انڈسٹری میں بروئے کار لایا جاتا ہے مگر یہاں وہ میکنزم نہیں ہے۔ اس لیے انڈسٹری زوال آمادہ ہے۔ ہم پہلے بھی عرض کر چکے ہیں کہ آج کا طالب علم کل کے طالب علم سے زیادہ ذہین اور سوال کرنے والا ہے۔
اب کلاس رومز میں اساتذہ سے کریٹیکل سوالات کیے جاتے ہیں جو پروفیسر آئیں بائیں شائیں کرتے ہیں اُن کی کلاس پھر طلبہ کلاس میں لیتے ہیں۔ آج کے پروفیسروں کے پاس ڈگریاں تو کمال کی ہیں وہ بلا کے ذہین بھی ہیں مگر یہ ذہانت ان کی ذات تک محدود ہے۔ وہ تحقیق میں بہترین ہیں، مگر بہترین ٹیچر نہیں ہیں۔ انہیں محقق کہا سکتا ہے مگر بہترین ٹیچر نہیں کہا جا سکتا۔
اب ملک کے ہر ضلعے میں یونیورسٹی بن گئی ہے مگر وہ قابل اساتذہ اب میسر نہیں جو پہلے ہوا کرتے تھے کیونکہ اب یونیورسٹیوں میں سیاسی اثر رسوخ کی وجہ سے میرٹ کو بالائے طاق رکھا جاتا ہے۔ اس سے قابل لوگوں کی حق تلفی ہو رہی ہے اور معیاری تعلیم ایک خواب بن کر رہ گئی ہے۔
یونیورسٹیوں کی تعداد زیادہ ہو گئی ہے لیکن معیار اس رفتار سے نہیں بڑھا۔ صرف قائد اعظم یونیورسٹی ایشیا کی اچھی یونیورسٹیوں میں شامل ہے، باقی کسی یونیورسٹی کا بھی نام ونشان نہیں۔ اس کی وجہ ہمارے نزدیک یہ ہے کہ اس میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کا بھی بڑا کردار ہے جن کی پالیسیاں عقل وفہم سے عاری ہیں۔
یہ انہی کی پالیسی تھی جس کے تحت تحقیق اور پی ایچ ڈی ڈگریوں کے حصول کے لیے پیپرز کو لازمی کر دیا اور تنخواہوں میں اور مراعات کو تحقیقی مقالوں سے مشروط کر دیا۔ اس کا نتیجہ کیا نکلا کہ پروفیسر پڑھانے کی بجائے تحقیقی مقالوں کے چھپوانے میں لگ گئے اور پڑھانا ایک ثانوی حیثیت اختیار کر گیا۔
80 کی دہائی میں پروفیسر بننے کے لیے 10 سے 12 پیپر درکار ہوتے تھے مگر اب یہ تعداد نکل کر سینکڑوں تک پہنچ گئی ہے، جن کے پیپر نہیں ہوتے وہ صرف پڑھاتے ہیں اور ریٹائر ہو کر اخبار بینی کرتے ہیں جبکہ ریسرچ پیپرز والے سسٹم میں ان رہتے ہیں۔