وینزویلا نے ملک کی دو اہم تیل ریفائنریوں کے پاس سے بڑی رقم، دھماکہ خیز مواد اورجدید اسلحے سے لیس امریکی جاسوس کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ صدر نیکوس مادورو نے امریکی جاسوس سے متعق تفصیل بتاتے ہوئے کہا ہے کہ وہ عراق میں سی آئی اے کے لیے کام کرتا رہا ہے اور وینزویلا کی ریاستی ریفائنریوں کی معومات اکٹھی کر رہا تھا۔ جاسوس کو امریکی میرین فوج کا اہلکار بتایا جا رہا ہے۔
جاسوس کے پکڑے جانے کے بعد علاقے میں حفاظتی اقدامات بڑھا دیے گئے ہیں، جبکہ وزارت پیٹرولیم نے ریفائنریوں پر دھماکے کے منصوبے کی اطلاعات کا دعویٰ بھی کیا ہے۔
صدر نیکولس نے عوام سے خطاب میں کہا ہے کہ امریکہ بدلے کی آگ میں بے وقوفی کی حدود پار چکا ہے ہے، ہم پر معاشی جنگ مسلط کی جا رہی ہے، اور ہماری تیل کی صنعت کو تباہ کرنے کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں۔
دوسری طرف امریکہ اپنے روائیتی جمہوری نعرے کو لے کر شوروغوغا کر رہا ہے کہ صدر نیکولیس ایک آمر ہیں۔ یاد رہے کہ امریکہ حزب اختلاف کے رہنما جوآن گوائیڈو کو وینزویلا کا صدر مانتا ہے۔ تاہم امریکی اور متعدد جنوبی امریکی ریاستوں کی حمایت کے باوجود جوآن طاقت حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
تاہم امریکہ کی ناقہ بندیوں کی پالیسیوں کے باعث وینزویلا کو بہت نقصان ہورہا ہے۔ ملک کی برآمدات 1943 کے بعد کم ترین سطح پر پہنچ گئی ہیں۔ امریکہ نے وینزویلا کی ریاستی تیل کمپنی کے تمام اثاثہ جات منجمند کرتے ہوئے ان کی ملکیت اپنے حمایت یافتہ رہنما جوآن کو منتقل کر دی ہے، جبکہ برطانیہ نے بھی اسی نقش قدم پر چلتے ہوئے 1 بلین ڈالر کے اثاثہ جات جوآن کے نام منتقل کر دیے ہیں۔
یاد رہے کہ 2020 کے آغاز میں بھی وینزویلا میں ایک امریکی جاسوس کو پکڑا گیا تھا، جبکہ مئی میں فلوریڈا کے ایک مشنری گروپ اور سکیورٹی کمپنی نے بھی گرفتاری کے بعد اعتراف کیا تھا کہ وہ صدر نیکولیس کو امریکی حمایت والے سیاسی رہنما سے تبدیل کرنے کے لیے کام کر رہے تھے۔
واقع کے کھل جانے کے بعد امریکی حکومت اور گوائیڈو نے الزامات مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ فلوریڈا کے مشنری گروپ یا کسی ایسے گروپ سے انکا کوئی تعلق نہیں ہے، اگرچہ واشنگٹن پوسٹ گوائیڈو اور ایک امریکی سکیورٹی کمپنی کے مابین معاہدے پر تفصیلی رپورٹ شائع کر چکا ہے۔
وینزویلا نے گرفتار امریکی جاسوسوں کو گزشہ ماہ 20 سال کی سزا سنائی ہے۔