بحرین نے بھی اماراتی نقش قدم پر چلتے ہوئے فلسطین پر صہیونی قبضے کو قبول کر لیا ہے۔ یوں بحرین دوسرا خلیجی اور چوتھا عرب ملک ہے جس نے اسرائیل کو بطور ریاست قبول کیا ہے۔
اب تک فلسطین پر صہیونی قبضے کو ترکی، اردن، مصر نے قبول کر رکھا تھا تاہم اب اور امارات اور بحرین بھی ان مسلم ممالک میں شامل ہیں جنہوں نے اسرائیل کو بطور ریاست قبول کر لیا ہے۔
مشرق وسطیٰ کی سیاست کے ماہرین کا کہنا ہے کہ بحرین کا اقدام بھی ایران کے مشترکہ خوف کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے، تاہم اس فیصلے سے فلسطینی مزید تنہائی کا شکار ہو جائیں گے۔
وائٹ ہاؤس کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعے کو بحرین کے شاہ حماد بن عیسیٰ آل خلیفہ اور اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو سے فون پر گفتگو کے بعد ٹوئٹر پر اس پیش رفت کا اعلان کیا۔
بحرین اور اس کی پڑوسی خلیجی عرب ریاست متحدہ عرب امارات کے اقدامات سے فلسطینیوں کو خدشہ ہے کہ عرب ممالک کے ساتھ معمول کے تعلقات کے بدلے میں اسرائیل کو مقبوضہ علاقوں سے دستبرداری اور فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا مطالبہ کرنے والے عرب امن معاہدے پر ان کی حمایت میں کمی آئے گی۔
ایک ماہ قبل متحدہ عرب امارات نے امریکی صدر کے ساتھ معاہدے کے تحت اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر کرنے پر اتفاق کیا تھا جس کے لیے صدر ٹرمپ کی میزبانی میں منگل کو وائٹ ہاؤس میں منعقدہ ایک تقریب میں دستخط کیے جائیں گے۔
جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ اس پیش رفت کو 3 نومبر کو ہونے والے صدارتی انتخابات جیتنے کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔
اس تقریب میں نتن یاہو، صہیونی وزیراعظم تاہم عرب ریاست سے اماراتی امیر کے بجائے وزیر خارجہ شیخ عبد اللہ بن زید النہیان شریک ہوں گے۔
مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ بحرین کے وزیر خارجہ عبد اللطیف ال ضیانی بھی اس تقریب میں شامل ہوں گے اور نیتن یاہو کے ساتھ ’امن کے تاریخی اعلامیے‘ پر دستخط کریں گے۔
واضح رہے کہ بحرین ایک چھوٹے سے جزیرے پر مشتمل ریاست ہے جو خطے میں امریکی بحریہ کا ہیڈ کواٹر بھی ہے۔
ادھر فلسطینی قیادت نے جاری ایک بیان میں معاہدے کو فلسطینی کاز کے ساتھ غداری قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی گئی ہے۔ بیان میں کہا گیا: ’فلسطینی قیادت بحرین کے شاہی خاندان کے اس اقدام کو مسترد کرتی ہے اور اس سے فلسطینی عوام کے جائز حقوق اور مشترکہ عرب جدوجہد کو پہنچنے والے نقصان کو روکنے کے لیے فوری طور پر اس معاہدے سے پیچھے ہٹنے کا مطالبہ کرتی ہے۔‘
فلسطین کی وزارت خارجہ نے بتایا کہ بحرین میں فلسطینی سفیر کو مشاورت کے لیے واپس بلایا گیا ہے۔ جبکہ غزہ میں حماس کے ترجمان حازم قاسم نے کہا کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کا بحرین کا فیصلہ فلسطین کے ریاستی منصوبے کو شدید نقصان پہنچائے گا اور اس سے صہیونی قبضے کی حمایت ہو گی۔‘