امریکی انتظامیہ نے معروف آن لائن خبر رساں ادارے اے جے پلس اور الجزیرہ کوغیر ملکی ایجنٹ قرار دینے کی کارروائی شروع کر دی ہے۔ امریکہ کے مقامی میگزین نے دعویٰ کیا ہے کہ امریکی سربراہ برائے انسداد جاسوسی کے سربراہ جے براٹ نے قطر کے الجزیرہ نیٹ ورک اور ملکی اداروں کو ایک خط میں لکھا ہے کہ ادارتی خود مختاری کے برخلاف الجزیرہ اور اس کے ذیلی ادارے قطر کی حکومت سے امداد پر چلتے ہیں۔ ایسے میں الجزیرہ اور اے جے پلس کو فارا 1938 قانون کے تحت غیر ملکی جاسوس قرار دے دینا چاہیے۔
یاد رہے کہ امریکی انتظامیہ 2018/18 میں چینی، روسی خ اور ترک خبررساں اداروں کے خلاف بھی ایسی کارروائیاں کر چکی ہے۔
الجزیرہ کی صحافی ثناء سعید نے کارروائی کو آزادی اظہار پر حملہ قرار دیا ہے۔ انکا کہنا ہے کہ وہ اے جے پلس کے لیے کام کرنے والے صحافیوں اور شعبہ صحافت کے لیے پریشان ہیں۔
خبروں کے مطابق الجزیرہ نے اپنی وضاحت میں دستاویزات سے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ ایک خود مختار ادارہ ہے اور اس کے خلاف فارا کی کارروائی نہیں ہو سکتی تاہم انتظامیہ جواب سے مطمئن نہیں ہو سکی، اور اب الجزیرہ دیگر راستے تلاش کر رہا ہے۔
یاد رہے کہ ریپبلکن ارکان 2018 سے صدر ٹرمپ پر دباؤ ڈال رہے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ چینل امریکیوں اور صہیونیوں سے نفرت پھیلانے والا ایک غیر ملکی نیٹ ورک ہے۔
اس سے قبل 2017/18 میں روسی خبر رساں ادارے ادارے رشیا ٹوڈے اور سپوتنک، متعدد چینی ادارے اور ترکی کا قومی خبر رساں ادارہ تے رے تے بھی فارا کی پابندیوں کا شکار ہو چکا ہے۔
رانیہ خالق نامی صحافی نے فارا کی کارروائی پر اپنے تبصرے میں کہا ہے کہ فارا ہمیشہ سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا۔