بدنام زمانہ برطانوی ڈیٹا مائننگ کمپنی کیمبرج اینالیٹیکا کے متعلق اہم دستاویزی رپورٹ میں انکشاف میں ہوا ہے کہ کمپنی نے نہ تو بریگزٹ میں ووٹوں کو متاثر کرنے کے لیے کوئی غلط اقدام کیا اور نہ انتخابی مہم میں روس کے ساتھ گٹھ جوڑ کے ذریعے ریفرنڈم کو متاثر کیا۔
تین سال کے وسیع دورانیے میں تیار کی جانے والی تحقیقاتی رپورٹ کو برطانوی کمیشن برائے ابلاغ نے جاری کیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کمپنی نے کوئی قانون نہں توڑا، نہ تو شہریوں کی معلومات کا غلط استعمال کیا، اور نہ روس کے ساتھ کوئی اتحاد بناکربریگزٹ ریفرنڈم کو متاثر کیا۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ اس چیز کا بھی کوئی ثبوت نہیں ملا کہ کمپنی نے براہ راست ریفرنڈم کو متاثر کیا ہو۔
رپورٹ میں کمپنی کے بڑے بڑے دعوؤں کا بھانڈا بھی پھوڑا گیا ہے، جن میں ہر شہری کا 5000 نکاتی تجزیہ سر فہرست ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کمپنی کی طرف سے ایسے تمام دعوے اپنی اشتہاری مہم کا حصہ تھے، جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
رپورٹ کے مطابق کمیشن نے کمپنی کے تمام 42 کمپیوٹروں میں موجود مجموعی طور پر700 ٹیرابائٹ کے ڈیٹے کا تفصیلی جائزہ لیا ہے، رپورٹ کے لیے کمپنی کے تمام 31 ڈیٹا سروروں اور 3 لاکھ کے قریب دستاویزات کو بھی کھنگالا گیا ہے۔
کمیشن رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ جیسا کہ کمیشن کو اس چیز کی اجازت نہ تھی کہ وہ بریگزٹ میں روسی مداخلت کی تحقیقات کرے، تاہم انہیں ایسے کوئی ثبوت بھی نہیں ملے کہ کمپنی نے روس کے ساتھ مل کر ایسا کچھ کیا ہو، یا ریفرنڈم کو کمپنی کے کام سے متاثر کیا گیا ہو۔
البتہ کمیشن کی سربراہ الزبتھ دنہام نے پارلیمنٹ کو خط میں کہا ہے کہ ہمارے جمہوری نظام میں کچھ کمزوریاں سامنے آئی ہیں، اور ہمیں ان پر کام کرنا چاہیے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ برطانوی انڈیپینڈنٹ پارٹی کے لیے یورپی یونین چھوڑو کی مہم کینیڈا کی ایگریگیٹ آئی کیو کمپنی کی مشاورت سے، کیمبرج اینالیٹیکا کے ساتھ اتحاد سے چلائی گئی۔
یاد رہے کہ کیمبرج اینالیٹیکا اور اس سے منسلک کمپنیوں کو 2018 میں بند کر دیا گیا تھا، کمپنی پر الزام تھا کہ اس نے لوگوں کی نجی معلومات تک رسائی کی۔ ایسے میں فیس بک کو کمپنی کو شہریوں کی معلومات بیچنے پر 5 ارب ڈالر کا جرمانہ بھی کیا گیا تھا۔ ج سکے لیے امریکی حکومت کا مؤقف تھا کہ کمپنی صارفین کی معلومات بیچنے کی مجرم ہے۔
بریگزٹ میں مداخلت پر برطانوی حکومتی ادارے نے بھی فیس بک کو ساڈھے 6 لاکھ ڈالر کا جرمانہ کیا تھا۔ تاہم فیس بک کا مؤقف تھا کہ برطانوی حکومت کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے کہ برطانوی صارفین کی معلومات سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کی گئی۔ یوں گزشتہ سال جرمانہ ختم کر دیا گیا، اور اب کی کمیشن رپورٹ بھی اس اقدام کی توثیق کرتی ہے۔
یاد رہے کہ کیمبرج اینالیٹیکا کے سربراہ الیگزینڈر نِکس کو گزشتہ ہفتے برطانیہ میں کسی بھی کمپنی کی قیادت سے روک دیا گیا ہے، کیونکہ وہ گاہکوں کو پھنسانے کے لیے غیر اخلاقی طریقے اپناتے ہوئے پکڑے گئے تھے۔ ان پر سات سال کی پابندی عائد کی گئی ہے۔