چین نے امریکہ کی جانب سے مزید اقتصادی پابندیوں کے جواب میں اپنے قومی خزانے سے امریکی ڈالر کو مزید کم کرنے کا عندیا دیا ہے۔ اقدام کا دعویٰ ساؤتھ چائنہ مارننگ پوسٹ کی جانب سے مختلف تجزیوں پر مبنی ایک رپورٹ میں سامنے آیا ہے۔
رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ چین نے امریکی قرضوں کا دباؤ بڑھانے کے لیے مسلسل تین ماہ تک 1 اعشاریہ 7 کھرب ڈالر کے امریکی بانڈ بیچے ہیں۔
چینی محکمہ برائے غیر ملکی زرمبادلہ کے مطابق 2015 تک ملکی خزانے کا 58 فیصد حصہ ڈالر میں تھا، جو اب 1 اعشاریہ 8 کھرب کی کمی کے ساتھ صرف 3 اعشاریہ ایک چار کھرب ڈالر رہ گیا ہے۔
دوسری طرف چین نے جاپانی بانڈ خریدنا شروع کر دیے ہیں اور اب تک تقریباً 14 ارب ڈالر کے بانڈ خرید چکا ہے۔
چینی اخبار نے دعویٰ کیا ہے کہ چین امریکی بانڈ میں سرمایہ کاری کو 20 فیصد تک کم کر سکتا ہے، یعنی مزید 800 ارب ڈالر کے بانڈ بیچ سکتا ہے۔
اخبار نے چینی مالیاتی ماہرین کے حوالے سے کہا ہے کہ چین اپنے سرمائے کو محفوظ رکھنے کے لیے ڈالر پر انحصار کو آہستہ آہستہ کم کرے گا، ایک دم سے کیا گیا اقدام خطرناک ردعمل کو پیدا کرسکتا ہے، اس لیے چین کو کسی تیزی سے اجتناب کرنا چاہیے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر امریکہ چین کو ڈالر بیچنے سے انکار کر دے تو اس سے چین کے عالمی سرمایہ کاری کے منصوبے متاثر ہو سکتے ہیں، اور یوآن کی عالمی مارکیٹ میں قدر بھی متاثر ہو گی۔
جبکہ دوسری طرف بہت سے ماہرین کے خیال میں ڈالر عالمی مارکیٹ میں اپنی وقعت کھو چکا ہے، ڈالر اب یوآن کو کوئی بڑا نقصان پہنچانے کی طاقت نہیں رکھتا۔ خصوصاًجبکہ چین مختلف تجارتی معاہدوں میں ڈالر کے بجائے یوآن کو بطور مترادف ابھار رہا ہے اور عالمی تیل مارکیٹ میں بھی چین ڈالر کے بجائے یوآن کو مغربی کرنسیوں کے برابر وقعت دلانے میں تیزی سے کامیابی حاصل کر رہا ہے۔