دنیا کی تین بڑی عسکری قوتوں میں سے دو – روس اور چین کا مستقبل میں ایسا اتحاد بن سکتا ہےجو عالمی توازن کو بالکل ہی بدل کر رکھ دے۔ اس بات کا اظہار روسی صدر ولادیمیر پوتن کی جانب سے ایک تحقیقی ادارے کی نشست میں سامنے آیا ہے، تاہم صدر پوتن کا کہنا ہے کہ فی الحال ایسا کوئی منصوبہ زیر غور نہیں ہے۔
والدائی ڈسکشن کلب کی بیٹھک میں گفتگو کے دوران صدر پوتن کا کہنا تھا کہ اگرچہ روس کو چین کے ساتھ کسی اتحاد کی ضرورت نہیں ہے تاہم مفروضے کے طور پر دیکھا جائے تو ایسا ممکن بھی ہے۔ دونوں بڑی طاقتیں تیزی سے ایک دوسرے کے قریب آ رہی ہیں اور مشترکہ عسکری مشقوں کا رواج بھی پروان چڑھ رہا ہے۔
واضح رہے کہ والدائی ایک روسی تحقیقی ادارہ ہے جسے 2004 میں قائم کیا گیا تھا، ادارے کا ہر سال سوچی میں اجلاس منعقد ہوتاہے، جس میں صدر پوتن بھی ضرور شریک ہوتے ہیں، اس سال کووڈ19 کی وجہ سے ڈیجیٹل اجلاس کا انعقاد کیا گیا تھا۔
اجلاس میں صدر پوتن کا کہنا تھا کہ روس اور چین کے تعلقات اس وقت تاریخی عروج پر ہیں، دونوں ممالک کا ایک دوسرے پر بھرپور اعتماد ہے اور باہمی منصوبوں میں کام کی رفتار بھی تعلقات کو مظبوط بنا رہی ہے۔
صدر پوتن کا کہنا تھا کہ ماسکو اور بیجنگ عسکری شعبے سمیت ہر میدان میں تعاون کو بڑھا رہے ہیں، چین نے روسی عسکری مشق قافقاز میں شرکت کر کے اعتماد کو نئے عروج تک پہنچایا ہے، جبکہ ٹیکنالوجی کے میدان میں بھی دونوں ریاستیں ایک دوسرے کا بھرپور ساتھ دے رہی ہیں۔
روسی صدر کا کہنا تھا کہ تعاون صرف عسکری و ٹیکنالوجی کے شعبوں میں ہی نہیں ہے بلکہ ہم مشترکہ طور پر انتہائی حساس شعبوں میں بھی کام کر رہے ہیں۔
دونوں ممالک کی باہمی تجارت 111 ارب ڈالر کو تجاوز کر رہی ہے اور دونوں ممالک ڈالر کی عالمی مارکیٹ پر اجارہ داری کے خلاف بھی مشترکہ حکمت عملی اپنائے ہوئے ہیں۔ صدر پوتن کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک میں ہونے والی آدھی سے زیادہ تجارت ڈالر کے بجائے مقامی کرنسیوں میں ہوتی ہے، اور اس تناسب کو مزید بڑھانے کا ارادہ بھی ہے۔