Shadow
سرخیاں
پولینڈ: یوکرینی گندم کی درآمد پر کسانوں کا احتجاج، سرحد بند کر دیخود کشی کے لیے آن لائن سہولت، بین الاقوامی نیٹ ورک ملوث، صرف برطانیہ میں 130 افراد کی موت، چشم کشا انکشافاتپوپ فرانسس کی یک صنف سماج کے نظریہ پر سخت تنقید، دور جدید کا بدترین نظریہ قرار دے دیاصدر ایردوعان کا اقوام متحدہ جنرل اسمبلی میں رنگ برنگے بینروں پر اعتراض، ہم جنس پرستی سے مشابہہ قرار دے دیا، معاملہ سیکرٹری جنرل کے سامنے اٹھانے کا عندیامغرب روس کو شکست دینے کے خبط میں مبتلا ہے، یہ ان کے خود کے لیے بھی خطرناک ہے: جنرل اسمبلی اجلاس میں سرگئی لاوروو کا خطاباروناچل پردیش: 3 کھلاڑی چین اور ہندوستان کے مابین متنازعہ علاقے کی سیاست کا نشانہ بن گئے، ایشیائی کھیلوں کے مقابلے میں شامل نہ ہو سکےایشیا میں امن و استحکام کے لیے چین کا ایک اور بڑا قدم: شام کے ساتھ تذویراتی تعلقات کا اعلانامریکی تاریخ کی سب سے بڑی خفیہ و حساس دستاویزات کی چوری: انوکھے طریقے پر ادارے سر پکڑ کر بیٹھ گئےیورپی کمیشن صدر نے دوسری جنگ عظیم میں جاپان پر جوہری حملے کا ذمہ دار روس کو قرار دے دیااگر خطے میں کوئی بھی ملک جوہری قوت بنتا ہے تو سعودیہ بھی مجبور ہو گا کہ جوہری ہتھیار حاصل کرے: محمد بن سلمان

امریکی ڈالر اور معیشت ایسے بحران میں گر چکے ہیں کہ کبھی کسی نے سوچا نہ ہو: امریکی ماہر معاشیات کی ویبنار میں گفتگو

امریکی محکمہ خزانہ کبھی بھی اپنی پالیسیوں میں درست نہیں رہا، اور یہی وجہ ہے کہ امریکی معیشت ہر آںے والے سال کے ساتھ مزید بڑے وبال میں پھنستی جا رہی ہے، ان خیالات کا اظہار معروف امریکی ماہر معاشیات پیٹر شیف نے ایک کانفرنس میں کیا ہے۔

ویبنار سے خطاب میں پیٹر شیف کا کہنا تھا کہ امریکی معیشت کی کتاب کا آخری باب لکھا جا رہا ہے، اس کتاب کو سابق بینکر اور قومی خزانے کے سربراہ ایلن گرین سپین نے لکھنا شروع کیا تھا، ایلن نے انٹرنیٹ کاروبار کے دھوکے میں ایک طرف قرضوں کو بڑھانے اور دوسری طرف شرح سود کو کم کرنے کی پالیسی اپنائی، جس کے نتیجے میں معیشت گرنا شروع ہوئی تو ایلن نے اپنی غلطی کے اعتراف کے بجائے پالیسی کو مزید سختی سے چلانے کی کوشش کی، حصص بازار کے ساتھ ساتھ رہائشی شعبے میں بھی ترقی ظاہر کر کے سب کچھ اچھا ہونے کا راگ الاپا گیا، تاہم درحقیقت سب اچھا نہیں تھا بلکہ ڈوب رہا تھا۔ پیٹر شیف کا مزید کہنا تھا کہ اسی دھوکے میں عمارتوں کی قیمتیں بڑھتی رہیں اور لوگ بینکوں سے مزید قرضے لے کر مزید خرچتے رہے، لوگوں نے اپنی استطاعت سے بھی بڑھ کر قرضے لیے اور انہیں بھی خرچ کیا، اور کسی کے پاس بھی کوئی جمع پونجھی نہ رہی، یوں ساری معیشت جھوٹی سرمایہ کاری پر آگئی، اور معیشت کے فیصلے مصنوعی طور پر روکے گئے کم شرح سود پر کیے جانے لگے۔

امریکی ماہر معاشیات نے وضاحت میں مزید کہا کہ جب جھوٹ پر کھڑی اس معیشت کے پاس مزید قرضے دینے کی گنجائش نہ رہی اور وفاقی بینک نے حالات سنبھالنے کی کوشش کی تو سب کچھ عیاں ہو گیا۔ پیٹر شیف نے واضح طور پر کہا کہ میں ہمیشہ کہتا تھا کہ قومی خزانے کو چلانے والے کبھی بھی شرح سود کو سنبھالنے کے قابل نہ تھے، اور نہ اب وہ اس سارے وبال سے نکلنے کے قابل ہیں۔ حکومتی بانڈ جاری کرنے سے صورتحال سنبھالی نہیں جا سکتی، امریکہ ایک بنانا ریپبلک بن چکا ہے۔

پیٹر کا مزید کہنا تھا کہ وفاقی بینک کی پالیسیاں کبھی بھی درست نہیں رہیں، بینک کے اعلیٰ اہلکار اپنی صلاحیتوں کے جو شور ڈالتے تھے، وہ سارا جھوٹ عیاں ہو چکا ہے، حیرانگی تو اس بات پر ہوتی ہے کہ کیسے کوئی مسلسل غلط ہو سکتا ہے۔

پیٹر شیف نے اپنی گفتگو کے اختتام پر کہا کہ ڈالر اپنی قدر بری طرح کھو چکا ہے اور ہمارے قومی قرضے ناقابل ادائیگی کی حد تک بڑھ چکے ہیں، اب کوئی حکومت پر اعتماد کرتے ہوئے بانڈ خریدنے کو بھی تیار نہیں، صورتحال اس قدر بگڑ چکی ہے کہ کبھی کسی نے سوچا بھی نہ ہو، صرف انفرادی قرضے نہیں حکومت کے قرضے لینے کی صلاحیت بھی ختم ہو چکی ہے۔ اور ایسا صرف امریکی خزانے کے ساتھ نہیں ہے بلکہ امریکی بانڈ کی ساری مارکیٹ ڈوب رہی ہے، جو جھوٹے خزانے کے بل بوتے پر چلائی جا رہی تھی۔ اور نہ صرف امریکی معیشت بلکہ امریکی ڈالر پر کھڑی تمام معیشتیں ڈوب جائیں گی۔

دوست و احباب کو تجویز کریں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

nine + 11 =

Contact Us