آسٹریلوی صنعت کاروں نے چین کو برآمدات پر چنگی ٹیکس بڑھنے یا انہیں مکمل بند کرنے کے شبہے کا اظہار کیا ہے۔ آسٹریلیا چین کو بڑی مقدار میں وائن، چینی، کوئلہ، لکڑی، جھینگا مچھلی، جو اور تانبا سمیت دیگر اربوں ڈالر کی برآمدات کرتا ہے تاہم آسٹریلیا کے چین کے خلاف امریکی اتحاد میں شامل ہونے اور دیگر سیاسی اقدامات کی وجہ سے آسٹریلوی صنعت کاروں نے تجارت پر اثرات کے شبہے کا اظہار کیا ہے۔
چینی الکوحل ایسوسی ایشن نے بھی مقامی وائن کی صنعت کو پروان چڑھانے کے نام پر آسٹریلوی وائن کے خلاف مہم کا آغاز کر دیا ہے اور آسٹریلوی وائن کی قیمت کو مقامی وائن سے بڑھانے پر زور دیا ہے۔ واضح رہے کہ چین کی مجموعی طلب کی 35 سے 40 فیصد وائن آسٹریلیا سے آتی ہے جو آسٹریلیا کے لیے سالانہ تقریباً 1 اعشاریہ 30 ارب ڈالر مالیت کا زرمبادلہ کماتی ہے۔
آسٹریلوی وائن صنعت کے بڑے برآمدکنندگان کا کہنا ہے کہ آئندہ سال کے لیے چنگی ٹیکس کا فیصلہ آئندہ جمعے کو ہونا ہے اور انہیں شک ہے کہ اس میں بہت زیادہ اضافہ کر دیا جائے گا۔ جبکہ بہت سے درآمدکنندگان نے پہلے سے دیے گئے آرڈروں کو بھی ختم کر دیا ہے۔ آسٹریلوی تاجروں کا کہنا ہے کہ انہیں امید ہے کہ حکومت دونوں مماک کے تعلقات میں بڑھتی ہوئی دوری کو کم کرنے کے لیے اقدامات کرے گی اور بڑے تجارتی نقصان کو روکا جا سکے گا۔
جبکہ دوسری طرف آسٹریلیا میں سیاستدانوں کا ایک گروہ چین کے خلاف لابنگ میں بہت متحرک ہے اور چین پر تجارت کے ساتھ ساتھ مقامی سیاست میں مداخلت کا الزام بھی لگاتا رہتا ہے۔ چین ایسے تمام الزامات کی سختی سے تردید کرتا ہے تاہم ایسے افراد کی اب حکومت میں موجودگی دونوں ممالک میں تعلقات کو خراب کر رہی ہے، جبکہ حال ہی میں امریکہ اور ہندوستان کے ساتھ مل کر چین کے خلاف اندوپیسفک اتحاد بنانے پر بھی چین نے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے اور بظاہر اپنے طور پر اس کے خلاف اقدامات بھی شروع کر دیے ہیں۔
اس سے قبل 2018 میں آسٹریلوی حکومت نے چینی ٹیکنالوجی کمپنی ہواوے اور زیڈ ٹی ای کی 5جی مصنوعات پر پابندی لگائی اور حال ہی میں کورونا وائرس کے چین سے آنے کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کے خلاف تحقیقات کا آغاز کر دیا۔
چین نے تاحال معاملے پر کسی قسم کا باقائدہ ردعمل نہیں دیا ہے تاہم گلوبل ٹائمز میں شائع ہونے والی ایک تحریر “آسٹریلوی تاجر چینی مارکیٹ کھونے پر پریشان” سے آسٹریلوی تاجروں کا کہنا ہے کہ اس سے ان کے تمام شبہے یقین میں بدل گئے ہیں۔ واضح رہے کہ گلوبل ٹائمز کو چینی حکومت کا ترجمان انگریزی اخبار مانا جاتا ہے۔