ایتھوپیا کے ارکان پارلیمنٹ نے وزیراعظم عابی احمد کے ملک کے شمالی علاقے تِغڑے میں ریاستی عملداری بحال کرنے کے لیے فوج بھیجنے کی حمایت کر دی ہے۔ ریاستی اسمبلی نے وزیراعظم کے حکم کی توثیق کرتے ہوئے 6 ماہ کے لیے شمالی علاقے میں فوج تعینات کرنے کی حمایت کی ہے۔
وزیراعظم عابی احمد کا کہنا ہے کہ ملک کو توڑنے کی سازش کرنے والوں کے فوج پر حملے کو قطعاً برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ حکومت کا الزام ہے کہ تِغرے کی مقامی پارٹی کے عسکری گروہ نے چند روز قبل ایک عسکری چھاؤنی پر حملے کے دوران دسیوں فوجیوں کو ہلاک کر دیا تھا، تاہم فرانسیسی ذرائع ابلاغ کے مطابق پارٹی نے حملے سے انکار کیا ہے۔
مقامی جماعت نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ تِغرے میں مقیم فوج ان کے ساتھ ہے اور رضاکارانہ طور پر ان کے ساتھ تعاون بھی کرتی ہے، جس کا مقصد ملک کو خانہ جنگی سے بچانا ہے۔ تاہم وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ پوری فوج ریاست اور صرف منتخب وزیر اعظم کے ساتھ وفادار ہے، اور علیحدگی پسند گروہ کا یہ دعویٰ غلط ہے۔
ریاستی اسمبلی میں متفقہ طور پر قرارداد میں مزید کہا گیا ہے کہ علاقے میں فوجی کارروائی علیحدگی پسندوں کے خاتمے کے لیے شروع کی گئی ہے۔ اور ایسا کرنے کا اختیار انہیں ملکی آئین سے ملتا ہے۔
تِغرے کی مقامی سیاسی جماعت کے سربراہ وونڈیم آسامنیو کا کہنا ہے کہ خطے میں امن قائم ہے تاہم افریقی یونین، اقوام متحدہ اور امریکی ایماء پر حکومت طاقت کا مظاہرہ کرنا چاہتی ہے۔
گروہ کے سربراہ نے وزیراعظم پر خطے کے استحصال کا الزام بھی لگایا ہے، اور دعویٰ کیا ہے کہ عسکری کارروائی دراصل 2018 سے جاری مالی بدعنوانی کو چھپانے کی ایک کوشش ہے، تاکہ اصل مدعوں سے توجہ ہٹائی جا سکے۔
واضح رہے کہ وزیراعظم عابی احمد لسانی طور پر اورومو قوم سے تعلق رکھتے ہیں جوملک کے جنوب میں آباد ہے۔ عابی ملک کی خفیہ ایجنسی کے سابق اہلکار رہے ہیں اور 2018 میں اس وقت اقتدار میں آئے جب ایک فوجی حکومت کے خلاف 3 سال تک مسلسل مظاہرے ہوتے رہے اور بالآخرحکومت کو جانا پڑا۔
یہاں یہ بھی واجح رہے کہ جس جماعت پر اب علیحدگی پسندی کا الزام لگایا ج ارہا ہے اس کے ایک سابق رہنما میلیس زیناوی 2012 میں انتقال تک ملک کے حکمران رہ چکے ہیں۔ زیناوی فوجی حکمران مینگیستو ہائیلے کے خلاف بغاوت کر کے ملک کے اقتدار پربراجمان ہوئے تھے، جبکہ مینگیستو ہائیلے خود بھی 1974 میں ملک کے بادشاہ ہائیلے سیلاسی کے خلاف بغاوت کر کے حکمران بنے تھے۔