نئی تحقیق کے مطابق کورونا وائرس چین سے بھی پہلے اٹلی، اسپین اور امریکہ میں موجود تھا، اور اس سے لوگ بیمار بھی ہو رہے تھے، محققین کے مطابق ایک نئی تحقیق کے مطابق وائرس ستمبر 2019 سے اٹلی میں باقائدہ متحرک تھا، جس کے مقابلے میں لوگوں کے جسم میں اینٹی باڈیز دریافت ہوئی ہیں۔ انکشاف سے وائرس کے ماخذ اور وباء کے دورانیے کے بارے میں نئی بحث شروع ہو گئی ہے۔
تازہ انکشکاف کی تفصیل کے مطابق دو عالمی جامعات کی جانب سے کینسر پر تحقیق کے لیے اٹلی میں ستمبر 2019 سے مارچ 2020 کے دوران 959 افراد کے خون کے نمونے لیے گئے، سائنسدانوں کو ستمبر 2019 میں لیے گئے نمونوں میں بھی کورونا وائرس کے موجود ہونے کے آثار ملے ہیں۔
محققین کے مطابق انہیں 111 افراد کے خون کے نمونوں میں کورونا کے خلاف اینٹی باڈیزملی ہیں تاہم ان میں سے بیشتر مریض کسی بھی قسم کی بظاہر علامات کے بغیر تھے، ڈیٹا کے مطابق صرف 11 افراد نے فلو کی شکایت درج کی تھی۔ اس انکشاف سے ثابت ہوتا ہے کہ کورونا وباء کی صورت اختیار کرنے سے 6 ماہ قبل ہی اٹلی میں متحرک ہو چکا تھا، اور یوں اس کے چین سے شروع ہونے کی خبر پر بھی ایک بار پھر سوال اٹھنا شروع ہو گئے ہیں۔
واضح رہے کہ مغربی میڈیا کے بھرپور پراپیگنڈا کے زیر اثر دنیا بھر میں یہ مانا جانے لگا ہے کہ کورونا گزشتہ سال دسمبر میں چین سے ابھرا، اور وباء کا ماخذ چینی صنعتی شہر وہان تھا۔
اس سے قبل جون میں فضلے پر ہونے والی ایک تحقیق میں سامنے آیا تھا کہ اٹلی میں کورونا کے آثاروباء کے شروع ہونے سے 6 ماہ قبل بھی موجود تھے۔
اس کے علاوہ اسپین کے سائنسدانوں کو بھی مارچ 2019 میں نکاسی کے پانی میں کورونا کے آثار ملے ہیں۔
امریکی اسپتالوں کے ڈیٹا کے تجزیہ سے بھی پتہ چلتا ہے کہ امریکہ میں بھی 2019 کے آخری مہینوں میں فلو کے مریضوں میں تیزی سے اضافہ ہوا، جن میں سے اکثر نے سخت کھانسی اور سانس لینے میں دشواری کی شکایت بھی کی تھی۔
واضح رہے کہ عالمی سطح پر اس وقت کورونا سے متاثرہ مریضوں کی تعداد ساڑھے پانچ کروڑ کے قریب ہے، جبکہ 13 لاکھ کے قریب اموات ہو چکی ہیں۔