قائم مقام امریکی وزیر دفاع کرسٹوفر ملر نے بظاہر افغانستان سے تمام فوجی نکالنے کی تیاریاں شروع کر دی ہے، انکے ایک حالیہ پیغام میں اعلیٰ عہدے دار کا کہنا تھا کہ اگرچہ افغانستان میں مسائل حل نہیں ہوئے تاہم بالآخر تمام جنگوں کو ختم ہونا ہے۔
وزیر دفاع نے وزارت کے تمام ملازمین کو لکھے ایک خط میں کہا ہے کہ ہم ایک مشکل دور سے گزر رہے ہیں، جس میں ہمیں اپنی صلاحیتیں انفرادی طور پر قائد بننے کے بجائے ایک معاون بن کر دکھانی ہیں، ہم ان میں سے نہیں جو جنگ و جدل کو پسند کرتے اور ہر وقت اس میں ملوث رہتے ہیں، بلکہ یہ رویہ ہمارے اور ہمارے آباواجداد کی اقدار کے خلاف ہے، تمام جنگوں کو ختم ہونا ہو گا۔
محکمہ انسداد دہشت گردی سے ہنگامی طور پر وزیر دفاع تعینات ہونے والے نئے ذمہ دار ملر کو صدر ٹرمپ کے قابل اعتماد ساتھیوں میں گنا جاتا ہے، اور وہ پینٹاگون میں ہونے والی ان چند نئی تبدیلیوں میں سے ہیں جو انتخابات کے بعد کی گئی ہیں۔
امریکی حلقوں کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ نے ملر کو 2016 کی انتخابی مہم میں افغانستان جنگ کے خاتمے کے وعدے کو پورا کرنے کا ہدف دیا ہے۔ واضح رہے کہ ملر کو جنگوں کے خاتمے کے بڑے حامیوں کے طور پر بھی دیکھا جاتا ہے، اپنے خط میں انہوں نے مزید کہا ہے کہ جنگوں کو ختم کرنے کے لیے سمجھوتے کرنے پڑتے ہیں، ہم نے 19 سال کی طویل ترین امریکی جنگ میں اپنی تمام کوششیں کر دیکھی ہیں، اب اس جنگ کو ختم کرنے کا وقت آگیا ہے۔
دوسری طرف امریکہ کے لبرل میڈیا میں صدر ٹرمپ کے افغانستان کی جنگ کو یوں ختم کرنے کو خطرناک گرداننے کی مہم شروع ہو گئی ہے۔ ایسے تجزیہ کاروں کو زیادہ وقت دیا جا رہا ہے جو جنگوں کی لابیاں کرتے رہے ہیں اور اب جنگ کو ختم کرنے کو بزدلی اور امریکی مفادات کے لیے خطرناک قرار دے رہے ہیں۔