سابق امریکی صدر باراک حسین اوباما کی نئی کتاب میں ڈرون حملوں سے متعلق انکی وضاحت نے امریکی جنگوں کے خلاف آواز کو مزید قوت عطا کر دی ہے۔ امریکی صدر نے معذرت خوانہ انداز میں لکھا ہے کہ وہ کبھی بھی ڈرون حملوں کا حکم دیتے ہوئے خوش نہیں تھے لیکن وہ ایسا کوئی خطرہ بھی مول نہیں لینا چاہتے تھے کہ انہیں دہشت گردی کے خلاف نرم سمجھا جائے۔
سابق صدر نے “اے پرامسڈ لینڈ” میں اپنے دور حکومت کے دوران متنازعہ ڈرون حملوں میں اضافے کی وضاحت دی ہے۔ اوباما نے لکھا ہے کہ انکے پہلے سپہ سالار ریحم ایمینوئل نے اسٹیبلشمنٹ کی دہشت گردوں کی لمبی فہرست کو مدنظر رکھتے ہوئے سخت محنت کی، وہ اس خوف میں مبتلا رہے کہ انکے نئے منتخب لبرل شبیہ والے صدر کو دہشت گردی کے خلاف نرم نہ سمجھا جائے۔ اوباما لکھتے ہیں کہ اس سے وہ خوش نہ تھے اور نہ ہی انہیں اس سے طاقتور ہونے کا احساس ہوتا تھا، البتہ وہ کوشش ضرور کرتے تھے کہ حملہ زیادہ سے زیادہ حملہ مؤثر ہو۔
لیکن صدر اوباما کے ناقدین ہمیشہ سے ڈرون کے غیر مؤثر ہونے کے قائل رہے ہیں، 2015 میں ڈرون حملوں سے متعلق سامنے آنے والے دستاویزات سے بھی پتہ چلتا ہے کہ اس میں 90 فیصد ہلاکتیں معصوم شہریوں کی ہوئیں، نہ کہ مبینہ دہشت گردوں کی۔
یاد رہے کہ صدر اوباما نے اپنی انتخابی مہم مشرق وسطیٰ میں جنگوں کے خاتمے کے وعدے پر لڑی تھی لیکن وہ انہیں مزید پھیلانے کے مرتکب ہوئے۔ شام اور لیبیا میں جنگوں کے پھیلاؤ نے ڈیموکریٹ اور جنگوں کو آپس میں جوڑ دیا ہے۔ اگرچہ ڈرون حملے بھی جارج بش کے دور میں شروع ہوئے لیکن اوباما کے 8 سالہ دور میں ان میں ریکارڈ اضافہ ہوا، جس میں ہونے والے عوامی نقصان پر اوباما کو شدید تنقید کا سامنا رہا ہے۔
رشیا ٹوڈے نے صدر اوباما کے ڈرون سے ناخوش ہونے کے بیان پر انکے وائٹ ہاؤس میں ایک خطاب کا حوالہ دیا ہے، جس میں صدر اوباما ڈرون کو لے کر ایک حاضرین کو ایک چٹکلہ سناتے ہوئے، جس سے ہال میں موجود امریکی بھی خوب محظوظ ہوتے ہیں۔
اوباما کے کتاب میں وضاحت پر جنگوں کے خلاف لابی کے علاوہ انٹرنیٹ پر صارفین بھی اوباما کو دکھاوے کے لیے لوگوں کو مارنے والا اور میکاولی کے القابات سے نواز رہے ہیں۔