متحدہ ہائے امریکہ کی اٹھارہ ریاستوں نے سپریم کورٹ میں صدارتی انتخابات میں دھاندلی کے خلاف ٹیکساس کی درخواست کی حمایت میں انفرادی درخواستیں دائر کر دی ہیں، درخواستوں میں انتخابات کے نتائج کا جوبائیڈن کے حق میں اعلان کرنے والی ریاستوں میں بدنظمی اور آئین کی خلاف ورزی کا مؤقف اختیار کیا گیا ہے۔
درخواست دائر کرنے والی ریاستوں میں میسوری، الباما، آرکنساس، انڈیانہ، کنساس، لوزیانہ، مسیسپی، مونٹانہ، نبراسکا، شمالی ڈکوٹہ، اوکلاہومہ، جنوبی کیرولینا، جنوبی ڈکوٹہ، ٹنسس، اوٹہ، ایریزونا اور مغربی ورجینیا شامل ہیں۔
درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ ریاستیں نہیں چاہتیں کہ انکے شہریوں کی رائے اور آئینی حق کو دوسری ریاستوں کی بدنظمی کے باعث نقصان پہنچے، 30 صفحاتی درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ انکے شہریوں کے ڈالے گئے آئینی ووٹ اور دیگر ریاستوں میں غیر مصدقہ ووٹوں کی وقعت برابر نہیں ہو سکتی، یہ انکی آزادی اور امریکی ریاست کے ساتھ شہریوں کے اعتماد کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہے۔
درخواستیں جارجیا، مشی گن، پنسلوینیا، اور وسکونسن کے انتخابی عملے کے خلاف دائر کی گئی ہیں۔
کچھ ریاستوں نے دھاندلی جبکہ کچھ نے بدنظمی، دوہرے قوانین، انتخابی قوانین میں انفرادی ترامیم اور ریپبلکن کے ووٹوں کو تکنیکی طور پر دبانے کی کوششوں کے خلاف درخواست دی ہے۔
ریاست ٹیکساس کی درخواست میں کہا گیا ہے بدنظمیاں قانونی طور پر منتخب صدر کے انتخاب میں رکاوٹ بنی ہیں۔ ٹیکساس کی درخواست میں دھاندلی کے مؤقف کے ساتھ شماریاتی تجزیے کی ایک سائنسی رپورٹ بھی شامل کی گئی ہے جس کے مطابق بائیڈن کو چاروں ریاستوں سے ملنے والے ووٹ تناسب میں ڈالے گئے ووٹوں سے کئی زیادہ ہیں، جبکہ صدر ٹرمپ کو ڈالے ووٹوں کے ساتھ ایسا معاملہ نہیں ہے۔
واضح رہے کہ انتخابات کی رات ڈاک کے ذریعے آنے والے ووٹوں کے شامل کیے جانے تک صدر ٹرمپ کو چاروں ریاستوں میں برتری حاصل تھی، جبکہ چار میں سے تین ریاستوں مشی گن، وسکونسن، پنسلوینیا میں ڈیموکریٹ گورنر ہے، جنہوں نے ممکنہ طور پر اثرو رسوخ استعمال کرتے ہوئے انتخابی نتائج کو بدلا۔ ریاست جارجیا میں اگرچہ ریپبلکن گورنر ہے تاہم رواں سال وہاں انفرادی طور پر ڈیموکریٹ اسمبلی کے دباؤ میں انتخابی قوانین میں ترمیم کی گئی، جس نے جوبائیڈن کو مدد فراہم کی ہے۔
سپریم کورٹ نے درخواستوں کو قبول تو کر لیا ہے لیکن تاحال سنوائی کی تاریخ نہیں دی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ عالمی تنازعات کے بڑھتے تناظر میں اندرونی سیاست میں بگڑتی صورتحال امریکی مفاد میں نہیں، اب صرف سپریم کورٹ ہی سے امید وابستہ ہے کہ وہ معاملے کو قابل قبول آئینی حل کی طرف لے جائے۔